مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ ممنوع چیزوں یعنی ترک ملاقات انقطاع تعلق اور عیب جوئی کا بیان ۔ حدیث 949

خدا کے لئے کسی سے محبت یا نفرت کرنے کی فضیلت

راوی:

عن أبي ذر قال خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم قال أتدرون أي الأعمال أحب إلى الله تعالى ؟ قال قائل الصلاة والزكاة . وقال قائل الجهاد . قال النبي صلى الله عليه وسلم إن أحب الأعمال إلى الله تعالى الحب في الله والبغض في الله . رواه أحمد وروى أبو داود الفصل الأخير

" اور حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ اپنے حجرہ مبارک سے نکل کر مسجد نبوی میں ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ اللہ کے نزدیک بہت پیارا عمل کون سا ہے؟ کسی کہنے والے نے کہا نماز یا زکوۃ اور ایک کہنے والے نے کہا کہ جہاد۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا اللہ کے نزدیک بہت پیارا عمل اللہ کی خوشنودی و رضا کی خاطر کسی سے محبت کرنا اور اللہ کی خوشنودی کی خاطر کسی سے نفرت و بغض رکھنا ہے۔ (احمد، اور ابوداؤد نے اپنی روایت میں حدیث کا صرف آخری جزو یعنی ان احب الاعمال الخ۔ نقل کیا ہے۔

تشریح
لفط والزکوۃ میں حرف واؤ کے معنی کے اعتبار سے او کی جگہ استعمال ہوا ہے یا مفہوم کے اعتبار سے الصلوۃ کے بعد عبارت گویا یوں ہے وقال قائل الزکوۃ، اور کسی کہنے والے نے کہا زکوۃ۔ حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوال، صحابہ کے جواب اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا جواب اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا جو سلوب نقل کیا گیا ہے اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حب فی اللہ اور بغض فی اللہ کا درجہ نماز، زکوۃ اور جہاد سے بھی بڑا ہے جبکہ حقیقت میں یہ نہیں ہے کیونکہ نماز زکوۃ اور جہاد وہ اعمال ہیں جو بلاشک و شبہ تمام اعمال سے افضل و اعلی ہیں اس صورت میں یہاں جو اشکال پیدا ہوتا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ جو شخص حقیقی معنی میں کسی سے اللہ کی رضا و خوشنودی کی خاطر محبت تعلق رکھے گا وہ یقینا انبیاء اور علماء اور اولیا اللہ سے سچی محبت و عقیدت رکھے گا تو ظاہر ہے کہ وہ یقینا ان کی اتباع و پیروی کرے گا بایں طور کہ نماز بھی پڑھے گا اور زکوۃ بھی دے گا اسی طرح جو شخص کسی سے اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے بغض و نفرت کرے گا تو وہ یقینا دشمنان دین سے دشمنی اور عداوت بھی رکھے گا اور جب وہ ان سے دشمنی و عداوت رکھے گا تو ظاہر ہے کہ وہ ان کی بیخ کنی، جہاد فی سبیل اللہ اور دین کی سر بلندی کی سعی و کوشش کرے گا، لہذا جب فی اللہ اور بغض فی اللہ کے ضمن میں ساری طاعتیں آ جائیں گی خواہ وہ نماز و زکوۃ ہو یا جہاد وغیرہ ان میں سے کوئی بھی چیز اس عمل سے باہر نہیں رہے گی اس اعتبار سے حضور کے ارشاد کا مطلب یہ ہوگا کہ دین کی اصلی بنیاد اور اعمال و طاعات کا مدار حب فی اللہ پر ہے، جس شخص نے اس درجہ کو حاصل کر لیا اس کے لئے تمام عبادات و طاعات کو اختیار کرنا کچھ مشکل نہیں ہوگا۔
یا اس ارشاد گرامی سے مراد یہ ہے کہ قلبی اعمال میں سب سے افضل حب فی اللہ اور بغض فی اللہ ہے اور بدنی اعمال میں سب سے افضل عمل نماز روزہ زکوۃ اور جہاد وغیرہ ہے اس صورت میں کوئی اشکال پیدا نہیں ہوگا اور یا یہ مراد ہے کہ شریعت نے جن امور کو اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور ان پر عمل کرنے کے بعد اور شریعت نے جن امور سے باز رکھا ہے ان سے اجتناب کرنے کے بعد یعنی فرائض واجبات کی تکمیل کے بعد حب فی اللہ اور بغض فی اللہ سب سے افضل عبادت ہے اور سب سے کامل طاعت ہے اس کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس کو طبرانی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے نقل کیا ہے۔ احب الاعمال الی اللہ بعد الفرائض ادخال السرور فی قلب مومن۔ فرائض کے بعد جو عمل اللہ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے وہ کسی مومن کے دل کو خوشی و مسرت سے بھرنا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں