مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ معاملات میں احتراز اور توقف کرنے کا بیان ۔ حدیث 968

حسد نیکیوں کو کھا جاتا ہے

راوی:

وعن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال إياكم والحسد فإن الحسد يأكل الحسنات كما تأكل النار الحطب . رواه أبو داود

" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا حسد سے اپنے آپ کو محفوظ رکھو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح لکڑیوں کو آگ جاتی ہے۔ (ابوداؤد)

تشریح
حدیث کا ظاہری مطلب یہ ہے کہ جس طرح آگ اور لکڑی کا معاملہ ہے کہ آگ لکڑی کو جلا کر اس کا وجود مٹا دیتی ہے اسی طرح حسد وہ خصلت ہے جو انسان کو اپنی گرفت میں لے کر اس کی نیکیوں کو مٹا دیتا ہے۔
" معتزلہ " اس حدیث کو اپنے اس مسلک کی دلیل قرار دیتے ہیں کہ ارتکاب معصیت ، عمل صالح کو باطل کر دیتا ہے اور برائیاں نیکیوں کو مٹا دیتی ہیں ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی گناہ کا مرتکب ہو جائے تو اس کے اچھے اعمال محض اس گناہ کے ارتکاب سے ملیا میٹ ہو جاتے ہیں، اور برائی کا خاصہ یہ ہے کہ وہ پچھلی نیکیوں کو ختم کر ڈالتی ہے لیکن ہم اہل سنت والجماعت اس بات کو غلط قرار دیتے ہیں انکا کہنا یہ ہے کہ برائیوں سے نیکیاں ختم نہیں ہوتیں البتہ نیکیوں کا خاصہ یہ ضرور ہے کہ وہ برائیوں کو مٹا دیتی ہیں جیسا کہ فرمایا گیا ہے
ا یت (ان الحسنات یذھبن السیات)۔ (بلاشبہ نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں ) جہاں تک اس حدیث سے معتزلہ کے استدلال کا سوال ہے تو اہل سنت والجماعت کی طرف سے کہا جاتا ہے اس ارشاد گرامی میں یہ جو فرمایا گیا ہے کہ حسد نیکیوں کو کھا جاتا ہے تو اس کا مطلب در اصل یہ ہے کہ حسد نیکیوں کے حسن و کمال کو زائل کر دیتا ہے جیسا کہ حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ الحسد یفسد الایمان کما یفسد الصبر العسل۔ یعنی حسد ایمان میں فتور پیدا کر دیتا ہے جس طرح ایلوا شہد کو بدمزہ کر دیتا ہے بعض حضرات نے یہ جواب دیا ہے کہ حسد نیکیوں کو کھا جانے سے مراد یہ ہے کہ حسد، حاسد کو محسود کا مال تلف کرنے اس کی زندگی تباہ کرنے اور اس کی عزت و آبرو کو نقصان پہنچانے پر اکساتا ہے اگر حاسد ان چیزوں کو عملا پورا نہیں کرتا تو وہ ان باتوں کا ارادہ اور رجحان ضرور رکھتا ہے اور کچھ نہیں تو غیبت وغیرہ کے ذریعہ اس کی عزت و آبرو کو نقصان یقینا پہنچاتا ہے لہذا حسد کی سزا یہ ملے گی کہ قیامت کے دن حاسد کی نیکیاں محسود کو دیدی جائیں گی اور یہ محسود کے ان حقوق کا بدلہ ہوگا جو حاسد اپنی گردن پر لے کر اس دنیا سے جائے گا جیسا کہ ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ میری امت میں حقیقی مفلس شخص وہ ہے جو قیامت کے دن اپنے نامہ اعمال میں نماز، روزہ ، زکوۃ، اور شب بیداری کا ثواب لئے ہوئے آئے گا لیکن اس کی حالت یہ ہوگی کہ اس نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر زنا کا بہتان لگایا گیا ہوگا کسی کا مال کھایا ہوگا کسی کا خون کیا ہوگا اور کسی کو مارا پیٹا ہوگا ۔ لہذا اس کی تمام نیکیاں ان لوگوں کو دیدی جائیں گی جن پر اس نے گالی اور بہتان وغیرہ کے ذریعہ زیادتی کی ہوگی لہذا مذکورہ بالا حدیث میں نیکیوں کے مٹائے جانے سے یہی مراد ہے یعنی قیامت کے دن اپنی نیکیوں سے محروم ہو جانا نہ کہ ان کی نیکیوں کو دیوان اعمال میں سے مٹا دینا اور ختم کر دینا مراد ہے یہ مراد یوں بھی صحیح نہیں ہوگی کہ اگر کسی کی نیکیوں کو یہیں مٹا دیا جائے اور ان کو دیوان اعمال میں سے محو کر دیا جائے تو پھر وہ وہاں قیامت کے دن کن اعمال کے ساتھ آئے گا۔ درآنحالیکہ حدیث سے یہ بات ثابت ہے کہ جس شخص نے دنیا میں جو اعمال کئے گئے ہوں گے وہ قیامت کے دن انہی اعمال کے ساتھ میدان حشر میں حاضر ہوگا۔ ایک جواب یہ بھی دیا جاتا ہے کہ ہر بندہ اپنی استعداد و صلاحیت کے مطابق اپنی نیکیوں میں اضافہ کرتا ہے اور اس کے نامہ اعمال میں ثواب کی تعداد بڑھتی رہتی ہے ظاہر ہے کہ جو بندہ نیکیوں کی بجائے خطاؤں کا مرتکب ہوتا ہے وہ اپنے نامہ اعمال میں نیکیوں اور ثواب کے اضافہ سے محروم ہو جاتا ہے اس اعتبار سے فرمایا گیا ہے کہ حسد، حاسد کا اچھی بات سے مٹا کر گویا ان نیکیوں سے محروم رکھتا ہے جو اس کو بری خصلت سے اجتناب کی صورت میں حاصل ہوتیں۔

یہ حدیث شیئر کریں