مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ معاملات میں احتراز اور توقف کرنے کا بیان ۔ حدیث 973

کسی مسلمان کی عزت وآبرو کو نقصان پہنچانے کی مذمت

راوی:

وعن سعيد بن زيد عن النبي صلى الله عليه وسلم قال إن من أربى الربا الاستطالة في عرض المسلم بغير حق . رواه أبو داود والبيهقي في شعب الإيمان

" اور حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا سب سے بڑھ کر سود یہ ہے کہ کسی مسلمان کی عزت و آبرو کو ناحق بگاڑنے کے لئے زبان درازی کی جائے۔ (ابوداؤد ، بہیقی)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ کسی شرعی مصلحت کے بغیر اور ناروا طور پر کسی مسلمان کے بارے میں اپنی زبان سے برے الفاظ نکالنا اس کی غیبت کرنا اس کے ساتھ تکبر کرنا اور اپنی بڑائی جتانے کے لئے اس کی حقارت و توہین کرنا اور اس طرح اس کی عزت کے درپے ہونا ایک ایسی خصلت ہے جو حرام ہونے اور گناہ لازم کرنے کے اعتبار سے بہ نسبت اور سودوں کے سخت ترین سود ہے واضح رہے کہ لغت میں ربوہ کے معنی ہیں زیادہ ہونا بڑھنا اور اصطلاح شریعت میں اس کا مفہوم ہے خرید و فروخت اور قرض میں واجب حق اور اصل رقم سے زیادہ لینا۔ لہذا کسی مسلمان کے بارے میں ایسا رویہ اختیار کرنا یا ایسے الفاظ اپنی زبان سے نکالنا جس کا اس مسلمان کے بارے میں اس کو کوئی حق نہیں ہے اور نہ اس کا تعلق کسی ایسے معاملہ سے ہو جس میں اس طرح کا رویہ اختیار کرنا یا اس طرح کے الفاظ کے استعمال کی شرعی طور پر اجازت ہو گویا اس چیز کی طرح ہے جو اپنے حق سے زیادہ اور نہایت ظلم کے ساتھ لی گئی ہو۔ اس اعتبار سے کسی کی آبروریزی کے لے زبان درازی کو ربو کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے اور پھر اس کو اربی یعنی سب سے بڑا سود کہا گیا ہے کیونکہ کسی مسلمان کے نزدیک اس کی عزت و آبرو اس کے مال و زر سے زیادہ حثییت رکھتی ہے اور مال و زر کی بہ نسبت عزت و آبرو کا نقصان زیادہ تکلیف اور زیادہ سخت ہوتا ہے۔
شارحین نے حدیث نے لکھا ہے کہ ناحق کی قید اس لئے لگائی گئی ہے کہ بعض صورتوں میں ایسا رویہ اختیار کرنا اور ایسی بات کہنا کہ جس سے عزت و آبرو مجروح ہوتی ہو مباح قرار دیا ہے مثلا کسی شخص پر کسی شخص کا کوئی حق ہے اور وہ اس حق کو ادا نہ کر رہاہو تو صاحب حق کو اجازت ہے کہ وہ اس شخص کو ظالم جیسے سخت الفاظ کہہ کر اس کو بد نام و بے عزت کرے۔ یا کوئی شخص کسی کے حق میں گواہی دے رہا ہو تو اس پر جرح کرنا اور اس کے گواہ کے عیوب بیان کرنا درست ہے اسی قسم سے راویان حدیث پر جرح کرنا بھی ہے یعنی محدثین کا حدیث کے راویوں کے عیوب ظاہر کرنا بھی درست ہے کیونکہ اس کا مقصد حدیث کی صحت کو محفوظ رکھنا ہے اور دین کی حفاظت کرنا ہے اسی طرح لوگوں کو نقصان و فساد سے بچانے کے لئے نکاح کا پیغام دینے والے کے صحیح احوال یعنی اس کی برائیوں کو ظاہر کرنا اور بدعتی و فاسق کی مذمت و بے عزتی کرنا بھی درست ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں