مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ معاملات میں احتراز اور توقف کرنے کا بیان ۔ حدیث 978

قسم کا بہرحال اعتبار کرو

راوی:

عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم رأى عيسى بن مريم رجلا يسرق فقال له عيسى سرقت ؟ قال كلا والذي لا إله إلا هو . فقال عيسى آمنت بالله وكذبت نفسي . رواه مسلم

" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا ایک مرتبہ حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام نے ایک شخص کو چوری کرتے ہوئے دیکھ لیا حضرت عیسی علیہ السلام نے اس شخص سے کہا تم نے چوری کی ہے اس شخص نے کہا ہرگز نہیں اس ذات پاک کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں میں نے چوری نہیں کی ہے۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے اس کو اس طرح قسم کھاتے ہوئے سنا تو کہا میں اللہ پر ایمان لایا اور اپنے نفس کو جھوٹا قرار دیا۔ (مسلم)

تشریح
میں اللہ پر ایمان لایا یعنی تم نے اپنی ہی قسم میں اللہ کی وحدانیت کا جو ذکر کیا ہے میں اس پر اپنے ایمان و اعقاد کا اقرار کرتا ہوں یہ جملہ مفہوم کے اعتبار سے یوں ہے کہ تم نے اللہ کی جو قسم کھائی ہے میں اس کا اعتبار کرتا ہوں اور اپنے نفس کو اس بات کے کہنے میں جھوٹا قرار دیتا ہوں کہ تم نے چوری کی ہے اگرچہ میرا یہ کہنا ظاہری حالات میں غمازی کی بنا پر تھا یہ وضاحت اس احتمال کے پیش نظر ہے کہ ہو سکتا ہے کہ اس شخص نے کہیں سے کوئی چیز اس کے مالک سے پوشیدہ طور پر اٹھائی ہو گی اس بنا پر حضرت عیسی علیہ السلام نے سمجھا کہ اس شخص نے چوری کی ہے لیکن اس نے اول تو اللہ کی قسم کھا کر چوری سے انکار کیا اور دوسرے اس موقع پر ایسی کوئی شرط نہیں پائی گئی ہوگی جس کا چوری کے ثبوت کے لئے اور چوری کی سزا یعنی حد جاری کرنے کے لئے پایا جانا شرعی طور پر ضروری ہوتا ہے اس لئے حضرت عیسی علیہ السلام نے اس شخص کی قسم کو تسلیم کر لیا اور اپنی بات کو غلط قرار دیا۔
حضرت شیخ عبدالحق نے یہ مطلب لکھا ہے کہ میں تمہیں تمہاری قسم میں سچا مانتا ہوں اپنے اس گمان سے رجوع کرتا ہوں جو میں نے تمہارے بارے میں قائم کیا تھا اور مذکورہ بات کے کہنے میں اپنے نفس کو جھوٹا قرار دیتا ہوں اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص کسی بات پر اللہ کی قسم کھائے تو اگرچہ اس کی وہ بات حقیقت کے کتنی ہی خلاف معلوم ہوتی ہو لیکن چاہیے یہی کہ اپنے گمان اور اپنی معلومات کو غلط قرار دیا جائے اور اللہ کے نام کی تعظیم کے پیش نظر اس کی قسم کا اعتبار کیا جائے۔

یہ حدیث شیئر کریں