مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ نرمی و مہربانی حیاء اور حسن خلق کا بیان ۔ حدیث 995

تدبر کی فضیلت

راوی:

وعن أبي ذر قال قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم يا أبا ذر لا عقل كالتدبير ولا ورع كالكف ولاحسب كحسن الخلق

" اور حضڑت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا ابوذر جان لو عمل تدبیر کے برابر نہیں ، ورع یعنی پرہیزگاری اجتناب و احتیاط کے برابر نہیں اور حسب و فضیلت خوش خلقی کے برابر نہیں ہے۔

تشریح
تدبیر کے معنی ہیں ہر کام کے انجام پر نظر رکھ کر اس کے لئے سامان پیدا کرنا لہذا عقل تدبیر کے مانند نہیں کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی عقل عقل تدبیر کے برابر نہیں ہو سکتی گویا مذکورہ جملہ میں عقل سے مراد مطلق علم و اداراک ہے تدبیر سے مراد عقل تدبیر ہے جس کا مطلب یہ ہے جو کام بھی کیا جائے پہلے اس انجام پر نظر رکھی جائے اور اس میں جو بھلائیاں و برائیاں ہوں ان کو پہچانا جائے۔
" ورع " کے معنی پرہیزگاری کے ہیں جس کو تقوی بھی کہا جاتا ہے اگرچہ بعض حضرات کے نزدیک ورع اور تقوی کے درمیان بھی فرق ہے وہ کہتے ہیں کہ ورع کا درجہ تقوی کے درجہ سے بڑھا ہوا ہے بایں طور پر کہ تقوی کا مطلب ہے کہ حرام چیزوں سے پرہیز کرنا اور تورع کا مطلب ہے کہ ان چیزوں سے بھی بچنا جو مکروہ یا مشتبہ ہوں لیکن زیادہ صحیح یہ ہے کہ تقوی اور تورع دونوں ایک ہی معنی ہیں اور عام طور پر سب لوگ ان دونوں کو ایک ہی معنی میں استعمال کرتے ہیں اب رہی یہ بات کہ حدیث میں جو دو لفظ روع اور کف نقل کئے گئے ہیں ان میں سے ورع کا ترجمہ پرہیز گاری اور کف کا ترجمہ اجتناب و احتیاط کیا گیا ہے۔ تو کیا ان دونوں کے درمیان کچھ فرق ہے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کیونکہ ورع کے معنی ہیں باز رہنا اور کف کے معنی ہیں باز رہنے کے ہیں اس صورت میں حدیث کے اس جملہ ل اور ع پر اشکال ہوتا ہے کہ کیونکہ اس کا لفظی ترجمہ یوں ہوں گا باز رہنا، یا رہنے کے برابر نہیں ۔ اور ظاہر ہے کہ اس طرح اس جملہ کے کوئی معنی ہی نہیں ہوں گے چنانچہ طیبی نے اس حدیث کی شرح میں اس اشکال کو ظاہر کیا ہے اور پھر اس کا جواب دیا ہے کہ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ کف کے معنی مسلمانوں کو ایذاء پہنچانے یا زبان کو لایعنی باتوں میں مشغول کرنے سے پرہیز کرنا ہے اور چونکہ دینی طور پر بھی اور سماجی و معاشرتی طور پر بھی ان دونوں چیزوں میں سے ہر ایک مفاسد اور اس کی برائیاں بہت ہیں اس لئے ان کے مفاسد کو از راہ مبالغہ بیان کرنے کے لئے گویا یہ فرمایا گیا کہ ورع یعنی حرام چیزوں سے باز رہنا اگرچہ ایک اعلی وصف ہے علاوہ ازیں ایک بات یہ بھی کہی جا سکتی ہے کہ ورع تقوی کے لغوی معنی اگرچہ باز رہنا اور پرہیز کرنا ہیں لیکن شرعی طور پر ان کے مفہوم میں امتثال اور اجتناب دونوں ایک ساتھ داخل ہیں اور اگر ان کا مفہوم صرف اجتناب ہی ہو تو احکام کی فرماں برداری ترک کرنے سے پرہیز کرنا بھی ان کے مفہوم میں داخل ہوتا لہذا بات وہی ورع اور تقوی کے مفہوم میں امتثال اور اجتناب دونوں داخل ہیں اور اس صورت میں بھی یہی نکلے گا کہ ورع اور تقوی کا اصل مفہوم یہ ہے کہ جو احکام دیئے گئے ہیں ان پر چلا جائے اور ان احکام پر خواہ امتثال کے طور پر ہو یا اجتناب کے طور پر۔ اس طرح جب یہ بات واضح ہو گئی کہ ورع کا تعلق دو چیزوں سے ہے یعنی جن امور کو کرنے کا حکم دیا گیا ہے ان کو اختیار کرنا اور جن امور سے منع کیا گیا ہے ان سے باز رہنا اور کف کا تعلق صرف ایک چیز یعنی ممنوعات سے باز رہنے سے ہے تو مذکورہ اشکال رفع ہو گیا اس کے بعد یہ مسئلہ جان لینا چاہے کہ جس سے حدیث کے مذکورہ جملہ کا مفہوم اور زیادہ صاف ہو جائے گا کہ جانب اجتناب کی رعایت جانب امتثال کی رعایت کی بہ نسبت زیادہ مقدم اور زیادہ ضروری ہے یعنی شریعت نے جن چیزوں سے باز رہنے کا حکم دیا ہے ان سے باز رہنا زیادہ ضروری ہے بہ نسبت اس کے کہ جن چیزوں کو اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے ان کو اختیار کیا جائے اسی بناء پر علماء نے لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص جانب امتثال میں فرض و واجبات اور سنن مؤ کدہ پر اکتفا کرے اور نوافل کو ترک کر دے لیکن جانب اجتناب میں خوب اہتمام کرے یعنی تمام حرام مکروہ اور مشتبہ چیزوں سے پرہیز کرے تو وہ شخص منزل مقصود پا لے گا یعنی معفرت و حقیقت اور قرب الٰہی کا درجہ حاصل کرے گا اس کے برخلاف اگر کوئی شخص جانب امتثال میں خوب اہتمام کرے لیکن یعنی فرائض و واجبات اور سنن مؤ کدہ پر بھی عمل کرے اور نوافل و مستحبات کو بھی ادا کرے لیکن جانب اجنتاب کی رعایت نہ کرے یعنی ممنوعات کا ارتکاب کرے تو وہ شخص منزل مقصود کو نہیں پہنچے گا اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص بیمار ہو اور وہ تو پرہیز تو پوری کرے لیکن دوا نہ کھائے تو وہ اچھا ہو جائے گا خواہ کتنی ہی دیر میں اچھا ہو اس کے برخلاف اگر وہ دوائیں کھاتا رہے لیکن پرہیز بالکل نہ کرے تو وہ ہرگز شفاء نہیں پائے گا بلکہ روز بروز بیمار ہوتا چلا جائے گا۔
" حسب و فضیلت خوش خلقی کے برابر نہیں ہے۔ حسب اصل میں کہتے ہیں کہ اپنے اور اپنے باپ دادا کے فضائل کو گنوانا اور اپنے خاندانی فخریہ کارناموں کو بیان کرنا، اس جملہ میں اس حقیقت کو واضح کیا گیا ہے کہ انسان کی ذاتی فضیلت و بزرگی اور انسانیت کا اصل تقاضا یہ ہے کہ اس میں خوش خلقی ہو اگر کوئی شخص خوش خلقی کی صفت سے محروم ہے تو وہ لاکھ اپنے مناقب گنوائے اور لاکھ اپنے فخریہ کارناموں کو بیان کرے اس کی کوئی حقیقت نہیں رہے گی واضح رہے کہ اگر خوش خلقی میں خلق سے مراد تمام باطنی اوصاف ہوں تو ظاہر ہے کہ حسن اخلاق کو سب سے بہتر اور اصل فضیلت کہا جائے گا اور اگر خلق سے مراد نرم خوئی و مہربانی اور مروت کے اوصاف ہوں جیسا کہ عام طور پر خوش خلقی انہیں اوصاف سے متصف ہوتی ہے تو اس صورت میں یہ فرمانا کہ حسب و فضیلت خوش خلقی کے برابر نہیں ہے خوش خلقی کی فضیلت کو از راہ مبالغہ بیان کرنے کے لئے ہوگا۔
اہل تصوف کے نزدیک خوش خلقی کی فضیلت ان الفاظ میں بیان کی جاتی ہے کہ خندہ پیشانی کے ساتھ رہنا لوگوں کو اپنی عطا و بخشش سے بہرمندہ کرنا اور اللہ کی مخلوق کو ایذاء پہنچانے سے باز رہنا یہ وہ اوصاف ہیں جن پر حسن خلق کا اطلاق ہوتا ہے یہ حضرت حسن بصری کا قول ہے ایک بڑے بزرک یہ کہتے ہیں کہ حسن خلق یہ ہے کہ اللہ کی مخلوق کے ساتھ عداوت ترک کر کے اور راحت و تنگی دونوں حالت میں خوش رہنا چاہیے ۔ حضرت سہل تستری کے قول کے مطابق حسن خلق کا سب سے کم تر درجہ یہ ہے کہ مخلوق کی طرف سے جو زیادتی و سختی پیش آئے اس کو برداشت کرے اور کسی سے انتقام نہ لے ظالم کے حق میں بھی شفیق و مہربان رہے اور اس کی مغفرت کا خواہاں رہے۔

یہ حدیث شیئر کریں