مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ قیامت کی علامتوں کا بیان ۔ حدیث 11

ایک آگ کے بارے میں پیشگوئی

راوی:

وعنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا تقوم الساعة حتى تخرج نار من أرض الحجاز تضيء أعناق الإبل ببصرى . متفق عليه .

" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ " قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک کہ حجاز سے ایک آگ نہ بھڑک لے گی جو بصری کے اونٹوں کی گردنوں کو روشن کر دے گی ۔" (بخاری ومسلم)

تشریح
" بصری " ملک شام کے ایک شہر کا نام ہے جو دمشق سے تین منزل کی مسافت کے فاصلہ پر واقع ہے اور " حجاز " جزیرۃ العرب کے اس علاقہ کو کہا جاتا ہے جس میں مکہ اور مدینہ بھی شامل ہیں ! اس حدیث میں جس آگ کا ذکر کیا گیا ہے اس کے متعلق تواتر کے ساتھ یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ اس آگ کے نمودار ہونے کا حادثہ پیش آ چکا ہے اور ان روایات سے معلوم ہوتا ہے اگرچہ اس آگ کے زیر اثر آنے والا زیادہ تر حصہ مدینہ ہی کے علاقہ پر مشتمل تھا مگر اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے مدینہ کے شہریوں کو اس آگ کی آفت وتباہ کاری سے محفوظ ومامون رکھا بیان کیا جاتا ہے کہ ٣ جمادی الثانی ٦٥٠ ھ جمہ کے دن وہ آگ نمودار ہوئی اور ٢٧ رجب ٦٥٠ ھ بروز اتوار تک یعنی مسلسل بارہ دن تک ظاہر رہی ! راویوں نے اس کی کیفیت یہ لکھی ہے کہ اچانک حجاز کی جانب سے وہ آگ نمودار ہوئی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آگ کا ایک پورا شہر ہے جس میں قلع یا برج اور کنگورے جیسی چیزیں موجود ہیں اور انسانوں کا اژدہام اس شہر کو کھینچے چلا آرہا ہے ، اس آگ کا سلسلہ جس پہاڑ تک پہنچتا اس کو شیشے اور موم کی طرح پگھلا کر رکھ دیتا تھا ، اس کے شعلوں میں بجلی کی کھڑک جیسی آواز اور دریا کے تموج جیسا جوش تھا ، اور یہ محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے اس کے اندر سے سرخ اور نیلے رنگ کے دریا نکل رہے ہوں ، وہ آگ اس کیفیت کے ساتھ مدینہ منوہرہ تک پہنچی مگر عجیب تر بات یہ تھی کہ اس کے شعلوں کی طرف سے جو ہوا مدینہ تک آرہی تھی وہ ٹھنڈی تھی ! علماء نے لکھا ہے کہ اس آگ کی لپٹیں مدینہ کے تمام جنگلوں تک کو منور کئے ہوئے تھیں یہاں تک کہ حرم نبوی اور مدینہ کے تمام گھروں میں سورج کی طرح روشنی پھیل گئی تھی ، لوگ رات کے وقت اسی کی روشنی میں اپنے سارے کام کاج کر تے تھے بلکہ ان دنوں میں اس پورے علاقہ پر سورج اور چاند کی روشنی معطل اور ماند ہوگئی تھی ، مکہ معظمہ کے بعض لوگوں نے یہ شہادت دی کہ انہوں نے وہ روشنی یمامہ اور بصری تک دیکھی ۔ اس آگ کی عجیب خصوصیات میں سے ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ وہ پتھروں کو تو جلا کر کوئلہ کر دیتی تھی مگر درختوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا ۔ کہتے ہیں کہ جنگل میں ایک بہت بڑا پتھر پڑا تھا جس کا آدھا حصہ حرم مدینہ کی حدود میں تھا اور آدھا حرم سے باہر تھا آگ نے پتھر کے اس آدھے حصہ کو جلا کر کوئلہ کر دیا جو حدود حرم سے باہر تھا لیکن جب اس آدھے تک پہنچی جو حدود حرم میں تھا تو ٹھنڈی پڑگئی اور پتھر کا وہ آدھا حصہ بالکل محفوظ رہا ! بہر حال اس عجیب وغریب ہیبتناک آگ نے اہل مدینہ پر بڑا خوف وہراس طاری کر دیا ، لوگوں نے رو رو کر اللہ سے اس آتشی فتنہ کے دفعیہ کے لئے دعا کی اپنی عملی اور دینی کو تاہیوں کی طرف متوجہ ہوئے جس کے ذمہ جس کا جو حق تھا وہ اس کی ادائیگی میں لگ گیا صدقہ وخیرات اور غلاموں کو آزاد کرنا شروع کر دیا اور جمعہ کی رات میں تمام اہل مدینہ یہاں تک کہ عورتیں اور بچے حرم شریف میں جمع ہوگئے اور سب لوگ حجرہ شریف (روضہ اقدس ) کے چاروں طرف ننگے سر بیٹھے روتے اور گڑگڑاتے رہے اور اللہ تعالیٰ سے حفظ وامان کی دعائیں مانگتے رہے ، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس آگ کا رخ شمال کی جانب پھیر دیا اور مدینہ منورہ کو اس سے محفوظ ومامون کر دیا علماء لکھتے ہیں کہ اس آگ کا نمودار ہونا قدرت الٰہی کی ایک عبرت انگیز نشانی تھی ، اس سال تمام دنیا میں مختلف قسم کے عجیب وغریب حادثات ووقائع کا ظہور ہوا اور اس کے کچھ ہی عرصہ کے بعد مختلف علاقوں میں خون ریز جنگ اور قتل وقتال کی وہ مہیب آگ بھڑکی جس نے بغداد جیسے عظیم شہر کو تاراج کر دیا اور تاتاریوں کے فتنہ کی صورت میں عالم اسلام کو سخت نقصان سے دوچار کیا ۔

یہ حدیث شیئر کریں