مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ حساب قصاص اور میزان کا بیان ۔ حدیث 138

کمال ایمان رکھنے والے لوگ حساب کتاب کے بغیر جنت میں جائیں گے

راوی:

وعن أسماء بنت يزيد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال يحشر الناس في صعيد واحد يوم القيامة فينادي مناد فيقول أين الذين كانت تتجافى جنوبهم عن المضاجع ؟ فيقومون وهم قليل فيدخلون الجنة بغير حساب ثم يؤمر لسائر الناس إلى الحساب . رواه البيهقي في شعب الإيمان .

" اور اسماء بنت یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہا ( ابن سکن ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " قیامت کے دن لوگوں کو ایک فراخ وہموار میدمان میں جمع کیا جائے گا ، پھر ایک اعلان کرنے والا اعلان کرے گا کہ کہاں ہیں وہ لوگ جن کے پہلو بستروں اور خواب گاہوں سے جدا رہتے تھے ( یہ اعلان سن کر ) اہل محشر میں سے بہت تھوڑے لوگ ( جو اہل اسلام میں ہوں گے اٹھیں گے ( یعنی مجمع سے نکل کر باہر آئیں گے ) اور حساب کتاب کے ( مرحلہ سے گزرے ) بغیر جنت میں چلے جائیں گے ، پھر باقی لوگوں سے حساب کا حکم دیا جائے گا " ( اس روایت کو امام بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے ۔ "
تشریح : (تَ تَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ ) 32۔ السجدہ : 16)( جن کے پہلو بستروں اور خواب گاہوں سے جدا رہتے تھے ) سے مراد یا تو وہ بندگان اللہ ہیں جو رات میں اپنی پر سکون نیند کی راحت سے صرف نظر کر کے اور اپنے آرام دہ بستروں اور خواب گاہوں کو چھوڑ کر اپنے خالق کی بارگاہ میں حاضری دیتے ہیں اور نماز تہجد پڑھتے ہیں ! اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ شاید وہ لوگ مراد ہوں جو صلوۃ الاوابین پڑھتے ہیں ! نیز یہ بھی احتمال ہے کہ ان سے وہ لوگ مراد ہوں جو عشا اور فجر کی نماز پڑھتے ہیں بہرحال حدیث کے ان الفاظ سے قرآن کریم کی ان آیتوں کی طرف اشارہ مقصود ہے جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے عبادت گزار اور پاکباز بندوں کو یوں متعارف کرایا ہے کہ : (اِنَّمَا يُؤْمِنُ بِاٰيٰتِنَا الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِهَا خَرُّوْا سُجَّدًا وَّسَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ 15 تَ تَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا وَّمِ مَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ 16 فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ جَزَا ءً بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ 17 ) 32۔ السجدہ17-16-15) بس ہماری آیتوں پر تو وہ لوگ ایمان لائے ہیں کہ جب ان کو وہ آیتیں یاد دلائی جاتی ہیں تو وہ سجدے میں گر پڑتے ہیں اور اپنے رب کی تسبیح وتحمید کرنے لگتے ہیں اور وہ لوگ ( ایمان لانے اور اللہ کے احکام ماننے سے ) تکبر نہیں کرتے ( جیسا کہ کافر لوگ تکبر کرتے ہیں اور از راہ خوف اللہ کا حکم ماننے سے انکار کرتے ہیں ) نیز ( رات کو ان کے پہلو خواب گاہوں سے علیحدہ رہتے ہیں ( خواہ عشاء فجر کی نماز یا تہجد کی نماز اور خواہ صلوۃ الاوبین پڑھنے کے لئے اور ان کے پہلو خواب گاہوں سے صرف علیحدہ ہی نہیں رہتے بلکہ وہ لوگ اپنے رب کو ثواب کی ) امید اور ( عذاب کے ) خوف سے پکارتے ہیں اور ہماری دی ہوئی چیزوں میں سے ( ہماری راہ میں ) خرچ کرتے ہیں ، پس کسی شخص کو خبر نہیں جو جو آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ایسے لوگوں کے لئے خزانہ غیب میں موجود ہے ، یہ ان کو ان کے نیک اعمال کا صلہ ملا ہے " پس ان آیات میں ان صفات اور خوبیوں کا ذکر ہے جو اہل ایمان کا خاصہ ہیں اور جن میں سے بعض صفات تو ایسی ہیں جن پر خود ایمان ہی موقوف ہے اور بعض صفات ایسی ہیں جن پر ایمان کا کامل ہونا موقوف ہے نیز مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوا کہ ایمان وعمل کا کمال رکھنے والے بندگان خاص قیامت کے دن حساب کتاب کے مرحلہ سے محفوظ رہیں گے ان پر کوئی سختی نہیں ہوگی ان سے کوئی مواخذہ نہیں ہوگا اور وہ اپنے رب کی بے پایاں عنایتوں اور رحمتوں کے سائے میں رہتے ہوئے حساب کتاب کے بغیر سیدھے جنت میں پہنچادیئے جائیں گے ۔
الا الذین امنوا وعملوا الصلحت وقلیل ما ہم ۔
مگر ہاں جو لوگ ایمان رکھتے ہیں اور نیک کام کرتے ہیں اور ایسے لوگ بہت ہی کم ہیں ! اور ایک موقع پر یوں اراشاد ہوا ہے ۔
وقلیل من عبادی الشکور ۔
اور میرے بندوں میں ( طاعت وعبادت کے ذریعہ میرا ) شکر ادا کرنے والے کم ہی ہوتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ اہل ایمان اور اہل حق کا اقلیت میں ہونا اور اس اقلیت میں ہونے کی وجہ سے ان کا مختلف قسم کے سماجی ، معاشرتی اور سیاسی مصائب وآلام میں مبتلا ہونا اور طرح طرح کے ظلم وجور سہنا ان کے لئے کوئی ایسی بات نہیں ہے جس سے وہ تنگ دل اور مایوسی کا شکار ہوں بلکہ حقیقت میں ان کے اللہ کی طرف سے ان کے لئے ایک اعزاز اور ایک سعادت ہے اور آخر کار جس کا صلہ انہیں ابدی راحتوں اور نعمتوں کی صورت میں ملنے والا ہے اللہ کے ان بندگان خاص یعنی ایمان وعمل کا کمال رکھنے والوں کو حساب کتاب کے بغیر جنت میں اس لئے داخل کیا جائے گا کہ انہوں نے دنیا میں ہدایت کے راتسہ کو اختیار کیا ، اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی فرمانبرداری کی ، دین کی راہ پر استقامت واستقلال کے ساتھ چلے ، اللہ کی رضا وخوشنودی کے لئے طاعت وعبادت کی مشقت برداشت کی ، دنیا کی لذتوں اور راحتوں کو ترک کیا اور اس طرح انہوں نے " صبر " کا مقام اختیار کیا تو پھر ان کو اللہ کے یہاں کی سعادتوں اور بے پایاں راحتوں کا مستحق ہونا ہی ہے ، اور ایسے ہی لوگوں کو مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں یوں بشارت دیتا ہے کہ
قل یعبادی الذین امنوا اتقوا ربکم للذین احسنوا فی ہذہ الدنیا حسنۃ وارض اللہ واسعۃ انما یوفی الصابرون اجرہم بغیر حساب
( اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) آپ صلی اللہ علیہ وسلم ( مؤمنین کو میری طرف سے ) کہیں کہ اے میرے ایمان والے بندو ! تم اپنے پروردگار سے ڈرتے رہو ( یعنی طاعت پر دوام اور گناہوں سے پرہیز کرو ) جو لوگ اس دنیا میں نیکی کرتے ہیں ان کے لئے نیک صلہ ہے اور اللہ کی زمین فراخ ہے ( یعنی اگر تمہیں دین کر راہ میں اپنا وطن بھی چھوڑنا پڑے تو اس سے بھی دریغ نہ کرو اور ہجرت کر کے دوسری جگہ چلے جاؤ ) اور ( ہم وعدہ کرتے ہیں کہ دین کی راہ میں ) اسقلال اختیار کرنے والوں ( اور ہر طرح کی مشقت وتکلیف پر صبر کرنے والوں کو ) ان کا صلہ بے حسب ملے گا ۔
میزان اور پل صراط کے بارے میں کچھ باتیں :
اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن میدان حشر میں ( ترازو) کھڑی کرے گا جس کے دوپلے اور ایک چوٹی ہوگی ، اور اس ترازو کے ذریعہ بندوں کے نیک اور برے اعمال کو وزن کرے گا معتزلہ ، مرجیہ اور فارجیہ فرقے کے لوگوں کو " ترازو" کے وجود سے انکار ہے وہ کہتے ہیں کہ " ترازو " سے مراد " میزان عدل " ہے ، اعمال کا تولنا اور وزن کرنا مراد نہیں ہے لیکن قرآن کریم اور احادیث نبویہ کی رو سے یہ لوگ جھوٹے ہیں خود اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ۔
ونضع الموازین القسط لیوم القیمۃ فلا تظلم نفس شیأ وان کان مثقال حبۃ من خردل اتینا بھا وکفی بنا حاسبین o
اور وہاں ہم قیامت کے دن عدل کے لئے ترازو رکھیں گے ( اور سب کے اعمال کا وزن کریں گے ) پس کسی پر کسی بات کا ظلم نہ ہوگا اگر رائی کے دانہ کے برابر بھی کسی کی نیکی ہوگی تو اسے دی جائے گی ( یعنی اس نیکی کو وہاں حاضر کرکے میزان عدل میں رکھا جائے گا ) اور ہم ہی حساب کے لئے کافی ہیں ایک موقع پر یوں فرمایا ہے ۔
فاما من ثقلت موازینہ فہو فی عیشۃ راضیۃ واما من خفت موازینہ فامہ ہاویۃ ۔ ( پھر اعمال کے وزن کے بعد ) جس شخص ( کے ایمان وعمل ) کا پلہ بھاری ہوگا وہ ہمیشہ عیش وراحت میں رہے گا اور جس شخص ( کے ایمان وعمل ) کا پلہ ہلکا ہوگا وہ دوزخ میں جائے گا ۔
پس عدل کی تعریف سب کی اور گرانی درست نہیں ، بلکہ ظہار عدل کے لئے درحقیت ترازو میں اعمال کو تولنا مراد ہے ، اور علماء نے لکھا ہے کہ یہ ترازو اللہ تعالیٰ کے اپنے دست قدرت میں ہوگی کیونکہ بندوں کا حساب اللہ تعالیٰ بلند کرے گا اور ایک کو پست کرے گا ۔
بیان کیا گیا ہے کہ بندوں کی نیکیاں رائی کے دانہ اور چھوٹی چھوٹی چیونٹیوں کے برابر ہوں گی جو بہت خوبصورت ہونگی ، انہیں نور کے پلے میں رکھا جائے گا ، اللہ تعالیٰ کی رحمت سے یہ پلہ بھاری ہو جائے گا برائیوں کی شکل بہت بھونڈی ہوگی اور انہیں ظلمت کے پلے میں رکھا جائے گا اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ پلہ ہلکا ہوجائے گا اعمال کے تلنے میں لوگوں کا حال تین طرح سے ہوگا بعض وہ ہوں گے جن کے نیک اعمال کا پلہ برے اعمال کے پلہ کی نسبت سے بھاری ہوگا ، ایسے لوگ بہشت میں جائیں گے ، دوسرا اگر وہ ان لوگوں کا ہوگا جن کے نیک اعمال کی نسبت ان کے برے اعمال کا پلہ بھاری ہوگا ایسے لوگ دوزخ میں جائیں گے ، تیسرا گروہ ایسے لوگوں پر مشتمل ہوگا جن کے نیک اعمال اور برے اعمال کے دونوں پلے برابر ہوں گے ، ایسے لوگوں کو اعراف میں پہنچایا جائے گا اور پھر خواہ شفاعت کی وجہ سے سزا سے پہلے ہی خواہ سزا کے بعد ان کو بھی جنت میں داخل کر دیا جائے گا ۔
اہل سنت کے نزدیک پل صراط پر ایمان لانا بھی واجب ہے ، یہ وہ پل ہے جو دوزخ کی پیٹھ پر سے گزرتا ہے اور جو بال سے زیادہ باریک اور آگ سے زیادہ گرم اور تلوار سے زیادہ تیز ہے ، قیامت کے دن تمام مخلوق کو اس پل پر سے گزارا جائے گا ، جو اہل جنت ہوں گے وہ اپنے ایمان وعمل کے مراتب کے مطابق آسانی یا پریشانی کے ساتھ پل پر سے گزر کر جنت میں چلے جائیں گے اور جو اہل دوزخ ہوں گے وہ اس پر سے گر کر دوزخ میں جا پڑیں گے اہل ایمان کو ان کے عمل کے مطابق نور عطا کیا جائے گا جس کی روشنی میں وہ اس پل کے راستہ کو طے کریں گے ان میں سے بعض سوار ہو کر اور دوڑنے کر برابر ہو جائیں گے بعض گھٹنوں کے بل اور بعض سرین کے بل رینگتے ہوئے جائیں گے پل صراط کی مسافت آخرت کے سالوں کے حساب سے تین ہزار سال ہے ! ایک روایت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ دوزخ پر سات پل ہیں اور ہر پل کے درمیان ستر برس کی مسافت جتنا فاصلہ ہے اور ہر پل تلوار کی دھار جتنا تیز ہے اس کے اوپر سے گزرنے والے گروہوں میں سے پہلا گروہ آنکھ جھپکتے ہی گزر جائے گا دوسرا گروہ اس طرح گزرے گا جس طرح بجلی اچک لے جاتی ہے تیسرا گروہ تیز ہوا کہ طرح گزر جائے گا ، چوتھا گروہ پرندوں کی سی تیزی کے ساتھ گزر جائے گا پانچواں گروہ گھوڑوں کی طرح دوڑ کر گزر جائے گا چھٹا گروہ دوڑتے ہوئے آدمیوں کی طرح سے عبور کرے گا اور سا تو اں گروہ پیدل چلنے والے لوگوں کی طرح سے گزر جائے گا ، ان سب کے بعد آخر میں ایک گروہ وہ باقی رہ جائے گا جب انہیں گزرنے کے لئے کہا جائے گا تو وہ اپنا پاؤں پل صراط پر رکھیں گے ، مگر ان کے پاؤں لرزنے لگیں گے ، چنانچہ وہ گھٹنوں کے بل چلنے لگیں گے ، اور دوزخ کی آگ کی چنگاریاں ان کے پاؤں اور پوست تک پہنچیں گی ، تب یہ لوگ پیٹ کے بل گھسیٹے چلیں گے پھر ہاتھوں کے ذریعہ پل کے ساتھ لپٹ جائیں گے ، آگ بھی ان سے لپٹ جائے گی ، تب آگ سے چھٹکارا پانے کے لئے وہ پیٹ کے بل گھسٹنے لگیں گے یہاں تک کہ دوزخ کو عبور کر لیں گے ، عبور کرنے کے بعد پلٹ کر دوزخ کی طرف نگاہ دوڑائیں گے اور کہیں کے جس اللہ نے اس ( دوزخ ) سے ہمیں پار کر دیا ہے وہ پاک ہے ، بیشک اس نے اپنے لطف وکرم سے میرے حال پر مہربانی فرمائی ہے ، آج تک از اول تا آخر اس نے میرے سوا اور کسی پر فضل نہیں کیا ، مجھے اپنے فضل سے پل صراط کے پنجہ سے رہائی دلائی ۔

یہ حدیث شیئر کریں