مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ قیامت کی علامتوں کا بیان ۔ حدیث 14

بہ تبہ سے دارالخلافہ کی منتقلی ایک بری علامت ہے

راوی:

وعن عبد الله بن حوالة قال بعثنا رسول الله صلى الله صلى الله عليه وسلم لنغنم على أقدامنا فرجعنا فلم نغنم شيئا وعرف الجهد في وجوهنا فقام فينا فقال اللهم لا تكلهم إلي فأضعف عنهم ولا تكلهم إلى أنفسهم فيعجزوا عنها ولا تكلهم إلى الناس فيستأثروا عليهم ثم وضع يده على رأسي ثم قال يا ابن حوالة إذا رأيت الخلافة قد نزلت الأرض المقدسة فقد دنت الزلازل والبلابل والأمور العظام والساعة يومئذ أقرب من الناس من يدي هذه إلى رأسك . رواه أبو داود .

اور حضرت عبداللہ ابن حوالہ کہتے ہیں کہ ( ایک مرتبہ ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جہاد کرنے کے لئے بھیجا تاکہ ہم مال غنیمت حاصل کر سکیں اور اس کے ذریعہ اپنی ضروریات پوری کریں ) ہمارا وہ سفر پیدل تھا ( یعنی چونکہ ہمارے پاس سواری کا کوئی انتظام نہیں تھا اس لئے ہمیں سفر جہاد میں پیدل ہی روانہ ہو نا پڑا ) اور (جب ) ہم اس جہاد سے (با عافیت وسلامت ) واپس ہوئے تو ہمارے ساتھ کچھ بھی مال غنیمت نہیں تھا ( جس کا ہمیں غم وافسوس تھا ) چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے چہروں پر اداسی اور مایوسی دیکھ کر ۔ ہمیں تسلی دینے اور ہمارے حق میں دعا کرنے کے لئے ) ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور (بطور دعا ) فرمایا کہ ۔ " پروردگار ! ان لوگوں کو میرے سپرد فرما ، ایسا نہ ہو کہ میں ان کی خبر گیری کی طاقت نہ رکھوں ۔ ان کو خود ان کے سپرد فرما کیونکہ یہ اپنے امور کی انجام دہی سے عاجز ہوں گے ، اور نہ ان کو دوسرے لوگوں کے سپرد فرما اور دوسروں کا محتاج بنا کیونکہ لوگ ان کی حاجتوں اور ضرورتوں پر اپنی حاجتوں اور ضرورتوں کو مقدم رکھیں گے ۔ " ( حضرت عبداللہ ابن حوالہ کہتے ہیں کہ ) اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک میرے سر پر رکھا اور فرمایا ۔ " اے ابن حوالہ ! جب تم دیکھو کہ خلافت ارض مقدس میں پہنچ گئی ہے ( یعنی مسلمانوں کا دارالخلافہ مدینہ سے منتقل ہو کر ملک شام پہنچ گیا ہے ) تو سمجھ لینا کہ زلزلے بلبلے ۔۔۔ اور ( وہ بڑے بڑے حادثے ( کہ جن کا تعلق قیامت سے ہے ) قریب آ پہنچے ہیں اور اس دن قیامت لوگوں سے اتنی قریب ہوگی جتنا میرا ہاتھ تمہارے سر سے قریب ہے ۔"

تشریح :
تاکہ ہم مال غنیمت حاصل کر سکیں ۔ " بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ ابن حوالہ اور ان کے ساتھیوں کی مالی حالت بہت سقیم ہوگی اور وہ لوگ سخت غریب اور افلاس کا شکار ہوں گے ، لہٰذا اس جہاد کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور خاص ان لوگوں کا انتخاب فرمایا ہوگا تاکہ اس جہاد میں جو مال غنیمت حاصل ہو اس کے ذریعہ یہ لوگ اپنی ضروریات زندگی کو پورا کر سکیں ) غالبًا اسی بنا پر غذا کا صریح ذکر نہیں فرمایا بلکہ مال غنیمت ہی کے ذکر پر اکتفا فرمایا ۔
" ان لوگوں کو میرے سپرد نہ فرما ۔" کا مطلب یہ تھا کہ یہ لوگ غربت وافلاس کا شکار ہیں اور میں نے ان کی اسی غربت وافلاس کی بنا پر ان کو جہاد میں بھیجا تھا تاکہ جہاد کا فریضہ بھی انجام پا جائے اور حاصل ہونے والے مال غنیمت کے ذریعہ ان کو اپنی ضروریات واحتیاج کو دور کرنے کا وسیلہ بھی فراہم ہو جائے ، مگر ان کی قسمت کی بات کہ ان کو اس جہاد میں مال غنیمت ہی حاصل نہیں ہو سکا ، پس اے اللہ ! اب تو ہی ان کی ضروریات کے تکفل کا کوئی اور وسیلہ پیدا فرما دے ، ان کی ذمہ داری میرے اوپر نہ ڈال کیونکہ میں ان کی غمخواری اور ان کی خبرگیری کا بوجھ اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتا !واضح رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات اس حقیقت کے پیش نظر فرمائی کہ انسان اپنی ذات کے اعتبار سے کوئی طاقت وقوت نہیں رکھتا اگر اللہ کی طرف سے اس کو وسائل وذرائع حاصل نہ ہوں تو وہ خود اپنی ذات کی خبر گیری سے عاجز وبے بس رہتا ہے چہ جائیکہ کسی دوسرے کی خبرگیری کا بوجھ اٹھا سکے اسی لئے ایک دعا میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں یوں عرض رسا ہوئے اللہم لا تکلنی الی نفسی طرفۃ عین یعنی اے اللہ ! پلک جھپکنے کے برابر بھی مجھ کو خود میرے سپرد نہ فرما بلکہ میری حفاظت وضمانت بس تو اپنے ہی ذمہ رکھ ) نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے قل لا املک لنفسی نفعا ولا ضرا الا ما شاء اللہ (یعنی اے محمد کہدیجئے کہ اپنی ذات کے تئیں نہ میں نفع کا مالک ہوں اور نہ نقصان کا، علاوہ اس چیز کے جو اللہ کو ( میرے حق میں ) منظور ہو ! اس سے معلوم ہوا کہ انسان کے کمال عبدیت کا تقاضا یہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو عاجز سمجھے اور یہ اعتراف واظہار کرے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد و توفیق اور اس کے حکم وفیصلہ کے بغیر کوئی بڑے سے بڑا شخص بھی کسی چھوٹی سی چھوٹی ذمہ داری کو پورا کرنے کی طاقت وقدرت نہیں رکھتا، چنانچہ تو حید کامل یہی وہ سبق ہے جو لاحول ولا قوۃ الا باللہ میں مذکور ہے اور جس کو ہر بندہ اپنی زبان سے دہرانے اور اس پر یقین رکھنے کا پابند بنایا گیا ہے ! ابن عدی نے کتاب کامل میں یہ حدیث نقل کی ہے کہ حضرت الیاس اور حضرت خضر علیہما السلام ہر سال کسی نہ کسی وقت ملتے ہیں ، چنانچہ جب ان کے ملنے کا وقت آتا ہے تو ان میں سے ہر ایک، دوسرے کو تلاش کرتا ہے اور پھر ملاقات کے بعد دونوں ہی یہ کلمات کہتے ہیں ہوئے جدا ہوتے ہیں بسم اللہ ما شاء اللہ لا یسوق الخیر الا اللہ ما شاء اللہ لا یصرف السؤء الا اللہ ما شاء اللہ ما کان من نعمۃ فمن اللہ لا حول ولا قوۃ الا باللہ !
چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی جناب باری تعالیٰ میں سب سے زیادہ قرب رکھتی ہے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کی ذمہ داری نہ سوپنے جانے کی دعا سب سے پہلے اپنی ذات کے تئیں فرمائی اس کے بعد اس دعا میں دوسرے لوگوں کو بھی شامل فرمایا کہ جس طرح میں اپنی کمزوری اور عجز کی بنا پر شاید ان کی خبر گیری کی ذمہ داری کا انجام نہ دے سکوں اسی طرح دوسرے لوگ خود اپنی ذات کے نفع و نقصان کو ترجیح دینے کے سبب ان کی خبر گیری نہیں کر سکیں گے، چنانچہ حقیقت بھی یہ ہے کہ جو لوگ خود غرضی کا شکار ہوتے ہیں اور صرف اپنی ذات کے نفع و نقصان سے مطلب رکھنے کی عادت میں گرفتار ہوتے ہیں وہ کسی دوسرے کی بڑی سے بڑی ضرورت و حاجت کو اپنی چھوٹی سے چھوٹی ضرورت وحاجت پر بھی تر جیح نہیں دیتے اور اگر ان کے سپرد کوئی ذمہ داری ہوتی ہے تو وہ اس کی انجام دہی میں ہر مرحلہ پر اپنی ذات کے فائدے کو مقدم رکھتے ہیں !بہر حال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری دعا کا حاصل یہ تھا کہ اے پروردگار ! ان لوگوں کی ذمہ داری میرے سپرد نہ فرما کیونکہ میں ان کی کفالت وخبر گیری کی ذمہ داری انجام دینے کی طاقت وقدرت نہیں رکھتا اس لئے تو خود ان کی ذات کو ان کی کفالت کا ذمہ دار بنا کیونکہ اول یہ لوگ ذاتی وسائل وذرائع نہ رکھنے کی وجہ سے اپنی کفالت کا بوجھ بھی برداشت کرنے کے قابل نہیں ہیں ، دوسرے ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ خواہشات نفس کی زیادتی اور بے راہ روی کا شکار ہو جائیں اور اپنی معاشی وسماجی زندگی کی خوش حالی کے لئے ایسے راستوں پر لگ جائیں جو ان کے دین وآخرت کے لئے نقصان وتباہی کا سبب بن جائے ۔ اسی طرح اے پروردگار ! ان کی ذمہ داری دوسرے لوگوں کے سپرد نہ فرما اور ان کو کسی کا محتاج نہ بنا کیونکہ وہ دوسرے ، اپنی ذاتی اغراض اور اپنے خود کے مفاد کو ان کے مفاد پر ترجیح دیں گے اور ان کی خبر گیری کا حق ادا نہیں کریں گے جس سے یہ اور زیادہ پریشان وتباہ ہو جائیں گے ۔ پس اے اللہ یہ تیرے بندے اور تیرے نام لیوا ہیں ، تو ان کو اپنا ہی محتاج بنا اور ان کے ساتھ وہی معاملہ فرما جو آقا اپنے غلاموں کے ساتھ کرتا ہے ۔
اس وضاحت سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اس دعا سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل مقصد امت کو اس امر کی تعلیم وتلقین کرنا ہے کہ بندے کو چاہئے کہ وہ اپنا ہر کام اور اپنا ہر معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کرے ، یعنی اپنی تدبیر وسعی اور ظاہری وسائل وذرائع پر بھروسہ کرنے کے بجائے اپنے پروردگار کی مشیت ومرضی پر بھروسہ کرے، اسی کی ذات پر یقین واعتماد رکھے ، اس کے علاوہ کسی اور پر بھروسہ واعتماد رکھتا ہے اللہ تعالیٰ یقینا اس کا کار ساز بنتا ہے اور اس کے ہر کام ومعاملہ کو ، خواہ وہ دینی ہو یا دنیاوی، بہتر انجام اور کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے چنانچہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ومن یتوکل علی اللہ فہو حسبہ یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لئے کافی ہو جاتا ہے ۔
" زلزلہ " کا مطلب زمین کا ہلنا ، بھونچال آنا ہے ، اسی لئے بلبلے سے مراد مختلف قسم کے غم وآلام اور تفکرات اور پریشانیاں ہیں، اور گویا یہ چیزیں قیامت کے اس سب سے بڑے زلزے کے آنے کی علامت اور مقدمہ ہونگی جس کے نتیجہ میں یہ پوری کائنات زیر وزبر ہو کر رہ جائے گی اور دنیا کا خاتمہ ہو جائے گا اور جس کی خبر اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں دی ہے اذا زلزلت الارض زلزالہا واضح رہے کہ مذکورہ باتیں بالکل آخر زمانہ میں واقع ہوں گی جب کہ بیت المقدس فتح ہوگا اور اس پر مسلمانوں کا کامل تسلط ہو جائے گا ۔
مشکو ٰۃ کے اصل نسخہ میں لفظ رواہ کے بعد جگہ خالی ہے لیکن جزری نے اس لفظ کے بعد اس عبارت کو شامل کیا ہے ابوداؤد واسنادہ حسن ورواہ الحاکم فی صحیحہ ( یعنی اس روایت کو ابوداؤد نے نقل کیا ہے اور اس کی اسناد حسن ہے ، نیز اس روایت کو حاکم نے بھی اپنی صحیح میں نقل کیا ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں