مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ حوض اور شفاعت کا بیان ۔ حدیث 145

شفاعت سے تمام انبیاء کا انکار

راوی:

بقیہ) اللہ تعالیٰ سے حضرت نوح علیہ السلام کی یہ درخواست چونکہ ایک ایسا امر تھا جس کو انہوں نے جانے بوجھے بغیر ظاہر کیا تھا اور اس بات کی تحقیق نہیں کرلی تھی کہ مجھے اللہ تعالیٰ سے اس طرح کی دعا مانگنی چاہئے یا نہیں ، اس لئے ان پر بارگاہ الٰہی سے عتاب نازل ہوا کہ نوح ہم سے وہ چیز نہ مانگو جس کی حقیقت کا تمہیں علم نہیں ہے اور جس کے بارے میں تم نہیں جانتے کہ وہ چیز مانگی جانی چاہئے یا نہیں ۔
' اور وہ دنیا میں تین مربتہ جھوٹ بولنے کا ذکر کریں گے " حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی جن باتوں کو " جھوٹ " سے تعبیر کریں گے حقیقت میں ان پر" جھوٹ " کا اطلاق نہیں ہو سکتا ، گو ظاہری حیثیت کے اعتبار سے وہ جھوٹ کی سی صورت رکھتی ہوں ، لیکن انبیاء جس عالی مربتہ کے ہوتے ہیں اور ان کا جو اونچا مقام ہوتا ہے اس کے پیش نظر ان کی اس طرح کی باتوں کو بھی جو ان کے مقام سے فروتر ہوں ، بارگاہ رب العزت میں نظر انداز نہیں کیا جاتا اسی لئے یہ کہا گیا ہے کہ حسنات الا برار سئیات المقربین ( بعض باتیں نیکوں کے حق میں تو نیکیاں ہوتی ہیں لیکن مقربین کے حق میں برائیاں ہوتی ہیں ۔ "
رہی یہ بات کہ وہ تین باتیں کیا تھیں جن کو حضرت ابراہیم علیہ السلام " جھوٹ " کے طور پر اپنی لغزش بتائیں گے ، تو ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ ایک دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم اپنے کسی میلہ میں تماشہ دیکھنے آبادی سے باہر جانے لگی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ارادہ کیا کہ میں ان لوگوں کے ساتھ نہیں جاؤں گا اور جب یہ سب لوگ چلے جائیں گے تو ان کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھا کر ان کے بت توڑ دوں گا جن کو یہ پوجتے ہیں اور میری باربار کی تلقین وتنبیہ کے باوجود بت پرستی سے باز نہیں آتے ، چنانچہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم لوگوں کو جانا ہو تو جاؤ میں تمہارے ساتھ نہیں چل سکتا کیونکہ میں بیمار ہوں ، ظاہر ہے کہ وہ دیکھنے میں جسمانی طور پر بیمار نہیں تھے ، اور ان کا یہ کہنا کہ " میں بیمار ہوں " بظاہر جھوٹ سمجھا جا سکتا ہے ، لیکن اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو ان کی یہ بات " جھوٹ " میں شمار نہیں کی جاسکتی کیونکہ جب انہوں نے یہ بات کہی تھی تو یہ مراد رکھ کر کہی تھی کہ تمہارے کفر وشرک اور تمہاری غلط حرکتوں نے میرے دل کو دکھی کر دیا ہے اور میں تمہارے غم میں اندورنی طور پر بیمار ہوں ، دوسری بات یہ تھی کہ قوم کے لوگوں کے میلے میں چلے جانے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کے بتوں کو توڑ پھوڑ دیا اور جب ان لوگوں نے واپس آکر دیکھا کہ آپ نے بتوں کو توڑ پھوڑ دیا ہے ۔ ان کا یہ جواب بھی اپنی ظاہری حیثیت میں ایک جھوٹ نظر آتا ہے ، لیکن یہاں بھی وہی صورت حال ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ بات اس مراد کے ساتھ کہی تھی کہ یہ جو بڑا بت ہے یہ تمہاری عبادات وتعظیم کے لئے ایک ممتاز ومنفرد حیثیت رکھتا ہے لہٰذا اس کا وجود اس بات کا باعث بنا کہ میں دوسرے چھوٹے چھوٹے بتوں کو توڑ دوں یا اس بات سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مقصد ان لوگوں کا مذاق اڑانا اور ان کو شرمندہ کرنا تھا کہ جس بت کو تم سب سے بڑا مانتے ہو اور سب سے زیادہ اس کی عبادت کرتے ہو ، اس کی لاچاری اور بے وقعتی کا یہ عالم ہے کہ اس کے ساتھی بتوں کو توڑ پھوڑ ڈالا گیا مگر وہ کسی بت کو بچا نہیں سکا ایسی صورت میں کیا یہ بت تمہاری پرستش کا مستحق ہو سکتا ہے ! اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسا کہ ایک شخص تو بہت زیادہ خوشخط ہو اور اس کے مقابلہ میں ایک دوسرا شخص بہت زیادہ بد خط ہو، اور وہ بدخط شخص خوشخط شخص کی کسی لکھی ہوئی تحریر کو دیکھ کر کہے کہ کیا یہ تحریر تم نے لکھی ہے اور خوشخط شخص اس کے جواب میں کہے کہ جی نہیں ، یہ تو تم نے لکھی ہے ، ظاہر ہے کہ اس جواب کے ذریعہ وہ یہی واضح کرتا ہے کہ تم تو اتنی اچھی تحریر ہرگز نہیں لکھ سکتے ، پھر یہاں میرے علاوہ اور کون لکھنے والا ہو سکتا ہے ! تیسری بات یہ تھی کہ انہوں نے اپنی بیوی یعنی حضرت سارہ کو ایک بدکار کافر کے ہاتھوں سے بچانے کے لئے کہا تھا کہ یہ عورت میری بہن ہے یہ بات بھی بظاہر " جھوٹ " کے دائرہ میں آتی ہے ، لیکن اگر اس حقیقت کو سامنے رکھا جائے کہ ایک مؤمن کی مؤمنہ بیوی بہرحال اس کی دینی بہن ہوتی ہے اور یہ بات کہنے سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مراد بھی یہی تھی کہ یہ عورت میری دینی بہن ہے ، تو اس پر جھوٹ کا اطلاق کیسے ہو سکتا ہے ، ویسے یہ بھی ملحوظ رہے کہ حضرت سارہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی چچازاد بہن بھی تھیں ، اس اعتبار سے بھی ان کا سارہ کو بہن کہنا کوئی جھوٹ نہیں تھا۔
اب حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف آئے ، دوسرے انبیاء کے برخلاف حضرت عیسی شفاعت کی درخواست لے کر آنے والوں کے سامنے اپنے کسی عذر کو بیان نہیں کریں گے اور نہ اپنی کسی لغزش کا ذکر کریں گے ، اس کی وجہ علماء نے یہ لکھی ہے کہ حضرت عیسی اس وقت اپنا عذر بیان کرنے میں توقف شاید اسی لئے کرینگے کہ وہ اس تہمت کی وجہ سے جو عیسائیوں کی طرف سے ان کو اللہ کا بیٹا کہے جانے کی صورت میں ان پر تھوپی گئی ہے ، اس درجہ شرمندہ ونادم ہوں گے کہ وہ اپنی خاموشی ہی کو زبان حال سے عذر بنا لیں گے ویسے بعض روایتوں میں ان کے کچھ عذر نقل بھی کئے گئے ہیں ، بہر حال اصل بات یہ ہے کہ شفاعت کا درجہ صرف ہمارے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہوگا جو سید المرسلین اور امام النبین ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ دوسرے تمام انبیاء اور رسول صلوت اللہ علیہم اجمعین شفاعت کے مقام پر کھڑا ہونے اور بارگاہ رب العزت میں شفاعت کرنے سے عاجز وقاصر ہیں ، ان کو یہ بلند بالا مرتبہ عطا ہی نہیں ہوا ہے ، لہٰذا شفاعت کی درخواست لے کر آنے والوں کے سامنے انہیں کونسی عذر بیان کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوگی ، اور وہ سب یا ان میں سے کچھ انبیاء کوئی عذر بیان کئے بغیر یہی کہیں گے کہ ہم اس عظیم الشان امر کے اہل نہیں ہیں ۔
" جن کے اگلے پچھلے سارے گناہ اللہ تعالیٰ نے بخش دیئے ہیں ۔ " اس جملہ کے سلسلہ میں واضح رہے کہ تمام ہی انبیاء معصوم عن الخطا یعنی گناہوں سے محفوظ ہیں چہ جائیکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو بدرجہا اولی اس سے پاک ومنزہ ہیں کہ کسی گناہ کی نسبت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہو ، پس یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ کہنا کہ " ان کے سارے اگلے پچھلے گناہ اللہ تعالیٰ نے بخش دیئے ہیں ۔ " یہ معنی رکھتا ہے ؟ اس کے بارے میں علماء نے مختلف باتیں کہی ہیں اور اس جملہ کی متعدد تاویلیں منقول ہیں ، لیکن زیادہ واضح تاویل یہ ہے کہ یہ جملہ دراصل بارگاہ رب العزت کی جانب سے سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم اعزاز اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی برتر فضیلت کے اظہار کا ذریعہ ہے قطع نظر اس امر کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی گناہ سرزد ہوا اور اس کی بخشش کی جائے ! اس کو مثال کے طور پر یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ جب کوئی امر مطلق اور بادشاہ اپنے کسی خاص مصاحب کو ہر حالت میں اپنا مطیع و فرمانبردار پرکھ لیتا ہے اور اس کی وجہ سے اس سے بہت زیادہ خوش ہوتا ہے تو اپنے دوسرے مصاحبوں اور رعایا کے لوگوں کے درمیان اس خاص مصاحب کی امتیازی اور مخصوص حیثیت کو ظاہر کرنے کے لئے اس سے یہ کہتا ہے کہ ہم نے تمہیں معاف کیا خواہ تم نے کچھ ہی کیا ہو اور آئندہ تم جو کرو وہ بھی معاف ، تم پر کوئی مواخذہ اور گرفت نہیں ۔
" اور میں در رب العزت پر پہنچ کر اس کی بارگاہ میں پیش ہونے کی اجازت طلب کروں گا ۔ " یہ جملہ حدیث کی اس عبارت ۔" کا آزاد ترجمہ ہے اگر اس عبارت کا لفظی ترجمہ کیا جائے تو وہ یوں ہوگا کہ پس میں اپنے پرودگار کے پاس اس کے مکان میں داخل ہونے کی اجازت طلب کروں گا ۔ " اس صورت میں کہا جائے گا کہ " اس کے مکان " سے مراد اس کی طرف سے عطا ہونے والے اجروثواب کی جگہ یعنی جنت ہے ۔ " لیکن یہ مراد گنجلک ہے ، زیادہ واضح تاویل وہ ہے جو علامہ تورپشتی نے بیان کی ہے ، انہوں نے لکھا ہے کہ " پروردگار کے پاس اس کے مکان میں داخل ہونے کی اجازت طلب کرنے " سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے یہ اجازت مانگیں گے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مقام میں داخل ہونے کی اجازت عطا کرے جہاں کسی کو بھی داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے جہاں پہنچ کر جو بھی عرض ودعا کی جائے ، اس کا منظور ومقبول ہونا یقینی ہے اور جہاں پہنچ کر کھڑے ہونے والے اور پروردگار کے درمیان کوئی حجاب حائل نہیں ہے ، اور یہ وہ مقام ہے جس کو مقام محمود " سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اسی کو مقام شفاعت " بھی کہتے ہیں ۔ رہی یہ بات کہ پروردگار تو مکان ولامکان کی قید سے پاک ہے ۔ اس کو جہاں بھی پکارا جائے اور جس جگہ بھی اس سے عرض ودعا کی جائے وہ وہیں موجود ہے اور وہیں سنتا اور دیکھتا ہے تو پھر اس کی کیا ضرورت ہوگی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میدان حشر میں جس جگہ لوگوں کی شفاعت کی درخواست قبول کریں گے وہاں سے چل کر اس مقام خاص پر بارگاہ رب العزت میں پیش ہونے کی اجازت طلب کریں گے اور پھر عرض ومعروض کریں گے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مؤقف ( یعنی میدان حشر کہ جہاں لوگ ٹھہرے ہوں گے ) دراصل ایک ایسے ملکی نظام کی طرح ہوگا جو کسی باقاعدہ اور مہذب حکومت کے تحت ہو، جہاں ہر شخص کے مرتبہ ودرجہ کے مطابق طریق کار اور نظم عمل کا ( اصول کار فرما ہو ، چنانچہ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم " شافع " کی حیثیت رکھیں گے اور " شافع " کا یہ حق ہے کہ وہ اعزاز واکرام کی جگہ آکر کھڑا ہو ، لہٰذا اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں یہ بات ڈالے گا کہ وہ اس جگہ سے چل کر جو خوف وہولناکی اور وحشت وگھبراہٹ سے گھری ہوگی ، اس جگہ آئیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعزاز واکرام کا مقام ہے ، تاکہ آپ وہاں اطمینان اور دلجمی کے ساتھ عرض ومعروض کر سکیں ۔
اور اس حمد وتعریف کے ساتھ کہ جو پروردگار مجھے سکھلائے گا ۔۔ الخ۔ سے حضور نے اس طرف اشارہ فرمایا کہ اس وقت میں جن الفاظ ، جس اسلوب اور جس انداز میں اللہ رب العزت کی تعریف وتوصیف بیان کرونگا وہ کیا ہوگا ۔ اس وقت اس کا علم مجھے بھی نہیں ہے وہ سب کچھ مجھے اسی وقت سکھایا اور بتایا جائے گا اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حمدوتعریف اس موقع اور اس مقام کی مناسبت سے جس قدر وسعت وگہرائی رکھ سکتی ہے اس کا ادراک یہاں کیا ہی نہیں جا سکتا ۔ اسی اعتبار سے اس مقام کو " مقام حمد " اور مقام محمود کہتے ہیں ۔
حدیث کے اس جزو سے یہ بات ہوئی کہ جو شخص کسی سے سفارش کرے تو اس کو چاہئے کہ وہ پہلے اس ( اس سفارش قبول کرنے والے کی تعریف وتوصیف کرے تاکہ اس کا قرب اور اس کی توجہ حاصل کر سکے اور قبول سفارش سے نوازا جائے ۔
" پھر میں شفاعت کروں گا " کے ضمن میں قاضی نے لکھا ہے کہ حضرت انس اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک روایت میں یہ منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ سے سر اٹھانے کے بعد اللہ تعالیٰ کی خوب خوب حمد و ثنا کریں گے اور پھر اس حمدو ثناء کے بعد شفاعت کی اجازت پا کر امتی امتی کہنا شروع کریں گے ۔
" اور میرے لئے شفاعت کی ایک حد مقرر کر دی جائے گی " کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے سامنے یہ متعین فرما دے گا کہ ایسے ایسے گنہگاروں کی شفاعت کرو ، مثلا وہ فرمائے گا کہ اپنی امت کے ان لوگوں کی شفاعت کرو جو زنا کار تھے ، یا جو بے نمازی تھے اور یا جو شراب نوش تھے ، چنانچہ میں اسی تعین کے ساتھ شفاعت کروں گا اور اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے زانیوں کے حق میں تمہاری سفارش قبول کی ، پھر فرمائے گا کہ میں نے بے نمازیوں کے حق میں تمہاری شفاعت قبول کی ۔ اسی پر دوسرے طبقوں کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے ۔
اور اس جماعت کو دوزخ سے نکلوا کر جنت میں داخل کراؤں گا اس موقع پر یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ حدیث کے شروع میں تو یہ مذکور ہے کہ شفاعت کی درخواست کرنے والے وہ لوگ ہوں گے جن کو میدان حشر میں محصور کیا گیا ہوگا اور وہاں کی تنگی وسختی اور کرب وہولناکی سے تنگ آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش چاہیں گے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اس جگہ کی پریشانیوں اور ہولنا کیوں سے نجات دلائیں لیکن یہاں حدیث کے اس جزو میں جب بارگاہ الٰہی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کرنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت قبول ہونے کا ذکر آیا ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس جماعت کو دوزخ سے نکلوا کر جنت میں داخل کراؤں گا تو اس سے یہ معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسے شفاعت کی درخواست کرنے والے وہ لوگ ہوں گے جنہیں دوزخ میں بھیجا جا چکا ہوگا ! ؟ اس کے دو جواب ہیں ، ایک تو یہ کہ شاید اہل ایمان کے دو طبقے ہونگے ایک طبقہ کو تو ( جو اپنے گناہوں کے سبب سزا کا مستوجب ہوگا ) میدان حشر میں محصور کئے بغیر دوزخ میں بھیج دیا جائے گا ، اور یہی طبقہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے شفاعت کی درخواست کرے گا ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت کے ذریعہ اس طبقہ کو اس بدترین حالت سے کہ جس میں وہ گرفتار ہوگا نجات دلا کر جنت میں پہنچوائیں گے اور پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طبقہ کے حق میں جماعت جماعت کر کے شفاعت فرمائے گے جو دوزخ میں ڈالا جا چکا ہوگا ، اور متعدد دفعوں میں ان کو دوزخ سے نکلوا کر جنت میں داخل کروائیں گے ! اس جواب کا حاصل یہ ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں یہاں صرف اسی ایک طبقہ کا ذکر فرمایا اور اختصار کلام کے طور پر دوسرے طبقہ کے ذکر کو حذف فرما دیا کیونکہ اس ایک طبقہ کو نجات دلانے کے ذکر سے دوسرے طبقہ کو نجات دلانے کے ذکر سے دوسرے طبقہ کو نجات دلانا بطریق اولی مفہوم ہو جاتا ہے ، دوسرا جواب یہ ہے کہ حدیث میں یہاں " نار " ( یعنی آگ ) کا لفظ منقول ہے جس کا ترجمہ " دوزخ " کیا گیا ہے " لیکن ہو سکتا ہے کہ " نار " یعنی آگ سے مراد" دوزخ " نہ ہو بلکہ وہ سخت حبس ، تپش اور گرمی مراد ہو جو میدان حشر میں سورج کے بہت قریب آجانے کی وجہ سے وہاں محسوس کی جائے گی اور " نکلوانے " سے مراد اس سخت تپش اور گرمی سے لوگوں کو چھٹکارا دلانا ہو ، اس صورت میں حدیث کی اس عبارت فاخرجہم من النار وادخلہم الجنۃ کا مفہوم یہ ہوگا کہ میں شفاعت قبول ہونے کے بعد درگاہ رب العزت سے باہر آؤں گا اور لوگوں کو سخت ترین تپش اور گرمی سے چھٹکارا دلا کر جنت تک پہنچواؤں گا یہ جواب اگرچہ ایک ایسی وضاحت ہے جس پر مجازی اسلوب کا اطلاق ہو سکتا ہے ، مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہی جواب حقیقت امر کے بہت قریب ہے اور حدیث کے اصل موضوع کے نہایت مناسب ہے ، کیونکہ اس ارشاد گرامی میں جس شفاعت کا ذکر ہو رہا ہے اس سے " شفاعت عظمی " مراد ہے جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد ادم ومن دونہ تحت لوائی یوم القیامۃ ۔ کے بموجب مقام محمود اور لوائے ممدود سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس شفاعت عظمی کا اصل مقصد تمام مخلوق کو میدان حشر کی پریشانیوں اور ہولنا کیوں سے چھٹکارا دلانا ، جہاں وہ حساب کے انتظار میں کھڑے ہوں گے اور ان کا حساب جلد کرنا ہوگا ، نیز یہی وہ شفاعت ہے جو صرف آنحضرت کے لئے مخصوص ہے ، اس کے بعد پھر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ، دوسرے انبیاء ، اولیاء علماء ، صلحا ، شہدا اور فقراء کی طرف سے متعدد شفاعتیں ہوں گی جن کی تفصیل ابتدائے باب میں بیان ہو چکی ہے ۔
یہی وہ مقام محمود ہے ۔۔ الخ۔ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی اس آیت میں حضور کے لئے جس " مقام محمود " کا وعدہ کیا ہے وہ اسی " شفاعت عظمی " کا مقام ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور کو عطا نہیں ہوگا ۔
واضح رہے کہ اس مقام کی صفت لفظ " محمود " کے ساتھ یا تو اس اعتبار سے ہے کہ اس مقام پر کھڑا ہونے والا اس کی تعریف کرے گا اور اس کو پہچانے گا ، یا اس اعتبار سے ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس مقام پر کھڑے ہو کر اللہ سبحانہ تعالیٰ کی حمدو ثنا بیان کریں گے اور یا اس اعتبار سے ہے کہ وہ مقام عطا ہونے کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف وتوصیف تمام اولین وآخرین مخلوق کی زبان پر ہوگی ۔

یہ حدیث شیئر کریں