مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ حوض اور شفاعت کا بیان ۔ حدیث 147

نصیبہ والا شخص

راوی:

عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال أسعد الناس بشفاعتي يوم القيامة من قال لا إله إلا الله خالصا من قلبه أونفسه .

" اور حضرت ابوہریرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " قیامت کے دن میری شفاعت کے لئے نصیبہ والا شخص وہ ہوگا ، جس نے ( دنیا میں ) خلوص تہ دل سے ، یا یہ فرمایا کہ خلوص تہ نفس سے لا الہ الا اللہ کہا ہوگا ۔ " (بخاری ومسلم )

تشریح :
من قلبہ او من نفسہ میں حرف او کے ذریعے راوی نے اپنے شک کا اظہار کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں من قلبہ کے الفاظ ارشاد فرمائے تھے یا من نفسہ کے ، بہر حال دونوں کے معنی ایک ہی ہیں کیونکہ ' ' نفس " سے مراد بھی " دل " ہی ہے نیز خالصا من قلبہ ( خلوص تہ دل ) ترکیب تاکیدی ہے ، کیونکہ " خلوص " کی جگہ تہ دل یعنی دل کی گہرائی ہی ہے نہ کہ کچھ اور ، اس اعتبار سے تہ دل کا دوسرانام " خلوص " ہے پس " کہنا ایسا ہی ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے " میں نے فلاں چیز کو اپنی آنکھ سے دیکھا ہے یا میں نے فلاں بات اپنے کان سے سنی ہے ۔
حدیث میں اسعد کا لفظ" سعید " کے معنی میں ہے اور اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ جو شخص اہل تو حید میں سے نہیں ہوگا وہ آنحضرت کی شفاعت سے فیض یاب نہیں ہوگا یا من قال سے مراد وہ شخص ہے جس کے نامہ اعمال میں ایسا کوئی بھی عمل نہ ہو جس کے سبب وہ رحمت کا مستحق قرار پاسکے اور دوزخ کی آگ سے نجات پانے کا سزا وارہوسکے ، اس صورت میں ظاہر ہے کہ شفاعت کا سب سے زیادہ ضرورت مند وہی شخص ہوگا اور شفاعت اسی کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچائے گی ۔

یہ حدیث شیئر کریں