مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ حوض اور شفاعت کا بیان ۔ حدیث 157

اہل ایمان کو عذاب میں مبتلا کرنے کی اصل وجہ

راوی:

وعن أبي سعيد رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " يخلص المؤمنون من النار فيحبسون على قنطرة بين الجنة والنار فيقتص لبعضهم من بعض مظالم كانت بينهم في الدنيا حتى إذا هذبوا ونقوا أذن لهم في دخول الجنة فوالذي نفس محمد بيده لأحدهم أهدى بمنزله في الجنة منه بمنزله كان له في الدنيا " . رواه البخاري

" اور حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! " جب اہل ایمان کو دوزخ سے چھٹکارا ملے گا تو ان کو ( جنت میں پہنچانے سے پہلے ) اس پل پر روک لیا جائے گا جو جنت اور دوزخ کے درمیان ہوگا ، اور پھر ان سے ایک دوسرے کو ان حقوق ومطالبات کا بدلہ دلوایا جائے گا جو دنیا میں وہ ایک دوسرے پر رکھتے تھے ( یعنی جو بھی شخص دنیا میں اپنے ذمے کسی کا حق رکھتا ہو اور اس کو ادا کرنے سے پہلے مر گیا ہوگا تو اس موقع پر اس سے وہ حق ، حقدار کو دلوایا جائے گا ) یہاں تک کہ جب وہ لوگ ( ہر طرح کے گناہ اور برائیوں کی آلائش سے ) بالکل پاک وصاف ہو جائیں گے تو ان کو جنت میں داخل ہونے کی اجازت دیدی جائے گی ۔ پس قسم ہے اس ذات کی جس کے دست قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے ( جب وہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے تو ( ان میں سے ہر شخص اپنے اس مکان کو ، جو اس کے لئے جنت میں مخصوص ہوگا اپنے دنیا کے مکان سے زیادہ پہنچاننے والا ہوگا ۔ " (بخاری )

تشریح :
" جب وہ لوگ بالکل پاک وصاف ہو جائیں گے ۔۔ الخ۔ " سے معلوم ہوتا ہے کہ گناہ گار اہل ایمان کو دوزخ کے سپرد کرنا اور عذاب میں مبتلا کرنا ان کو پاک وصاف کرنے کے لئے ہوگا تاکہ وہ پوری طرح کندن ہو کر جنت میں ، کہ جو ان کے ہمیشہ رہنے کی جگہ ہے ، داخل ہوں ، نہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے ان مؤمن بندوں کو کسی نفرت وعداوت اور قہر وغضب کے تحت دوزخ کی آگ میں جھونکے گا ! اور اس کا یہی حکم اس دنیا میں بھی کار فرما ہے کہ وہ اپنے بندوں کو بیماریوں حادثوں اور مختلف تکالیف ومصائب میں مبتلا کر کے ان کے گناہوں کو دھوتا رہتا ہے ۔
اہل تحقیق نے کہا ہے کہ مختلف اوقات میں بندوں سے جو گناہ سرزد ہوتے رہتے ہیں ان میں بعض گناہ تو حق کی خاطر برداشت کی جانے والی مشتوں اور مختلف مصائب وآفات میں مبتلا ہونے کی وجہ سے دھل جاتے ہیں ، بعض گناہ وہ ہوتے ہیں جن کو سکرات الموت کی شدت وسختی پاک و صاف کر دیتی ہے ، بعض گناہ وہ ہوتے ہیں جو عذاب قبر سے ختم ہو جاتے ہیں اور بعض گناہ وہ ہوتے ہیں جو دوزخ کی آگ کے علاوہ کسی اور چیز سے صاف نہیں ہوں گے جیسا کہ سونے اور چاندی کو بھٹی میں ڈال کر پگھلائے بغیر کندن نہیں کیا جا سکتا ۔
" ان میں سے ہر شخص اپنے مکان کو ۔۔ الخ۔ سے قلب کی اس قوت و نورانیت اور ہدایت کی طرف اشارہ ہے جو گناہوں سے پاک وصاف ہونے کی صورت میں حاصل ہوتی ہے ، نیز اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ جب ان لوگوں ( یعنی اہل ایمان ) نے دنیا میں نور توفیق اور نور قلب کی روشنی میں ایمان ، عمل صالح اور تعلق مع اللہ کے راستہ کو پالیا تھا اور ہدایت یافتہ ہوگئے تھے تو آخرت میں بھی جنت کے اندر اپنی منزل اور اپنے مقام کا راستہ آسانی کے ساتھ پا لیں گے ۔

یہ حدیث شیئر کریں