مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ قیامت کی علامتوں کا بیان ۔ حدیث 17

امام مہدی کے بارے میں پیشگوئی

راوی:

وعن بد الله بن مسعود قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا تذهب الدنيا حتى يملك العرب رجل من أهل بيتي يواطيء اسمه اسمي رواه الترمذي وأبو داود . وفي رواية له لو لم يبق من الدنيا إلا يوم لطول الله ذلك اليوم حتى يبعث الله فيه رجلا مني أو من أهل بيتي يواطئ اسمه اسمي واسم أبيه اسم أبي يملأ الأرض قسطا وعدلا كما ملئت ظلما وجورا .

اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ " دنیا اس وقت تک اختتام پذیر نہیں ہوگی جب تک کہ عرب پر ایک شخص قبضہ نہ کرلے گا جو میرے خاندان میں سے ہوگا اور اس کا نام میرے نام پر ہوگا ۔ " (ترمذی ابوداؤد ) اور ابوداؤد کی ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ اگر دنیا کے اختتام بذیر ہونے میں صرف ایک دن بھی باقی رہ جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس دن کو طویل ودراز کر دے گا ، یہاں تک کہ پروردگار میری نسل میں یا یہ فرمایا کہ میرے اہل بیت میں سے ایک شخص کو بھیجے گا جس کا نام میرے نام پر اور جس کے باپ کا نام میرے باپ کے نام پر ہوگا اور وہ تمام روئے زمین کو ( عرب کی سر زمین کو ) عدل وانصاف سے بھر دے گا جس طرح اس وقت سے پہلے تمام روئے زمین ظلم وجور سے بھری تھی۔"

تشریح
اس حدیث میں جس ذات گرامی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس سے حضرت امام مہدی مراد ہیں چنانچہ ان کا اصل نام تو" محمد" ہوگا ، اور لقب " مہدی " ہوگا ، نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت سے تعلق رکھتے ہوں کے البتہ اس بارے میں اختلافی اقوال ہیں کہ آیا وہ حضرت امام حسین کی اولاد میں سے ؟ لیکن بظاہر یہ بات زیادہ قرین قیاس ہے کہ وہ باپ کی جانب سے تو حسنی ہوں گے اور ماں کی جانب سے حسینی ! حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ بالا ارشاد گرامی میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کا تعلق صرف نسبی اور نسلی نہیں ہوگا بلکہ روحانی اور شرعی بھی ہوگا ، یعنی ان کا طور طریقہ ، اور ان کے عادات ومعمولات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے طور طریقے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عادات ومعمولات کے مطابق ہوں گے ۔
واضح رہے کہ حدیث میں حضرت امام مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف صرف عرب کی نسبت ( کہ ان کا قبضہ عرب پر ہوگا ) محض ان کی نسلی و وطنی عظمت اور شرف فضیلت کی بنا پر ہے ، ورنہ دوسری احادیث میں آیا ہے کہ ان تسلط وقبضہ پوری دنیا پر ہوگا خواہ عرب علاقے ہوں یا غیر عرب لیکن یہ توجیہ زیادہ مناسب ہے کہ محض عرب کے ذکر پر اکتفا کرنا اس اعتبار سے ہے کہ تمام دنیا کے مسلمان روحانی طور پر عرب ہی کے تابع ہیں، لہٰذاعرب پر ان کا تسلط واقتدار بالواسطہ طور سے تمام دنیا کے مسلمانوں پر تسلط واقتدار کے مترادف ہے ۔ " اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ دنیا کا ہر مسلمان روحانی طور پر عربی ہے ۔
اس موقع پر ایک خاص بات یہ بتا دینی ضروری ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے امام مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جو یہ فرمایا ہے کہ اس کا نام میرے نام پر اور اس کے باپ کا نام میرے باپ کے نام پر ہوگا ۔" تو اس بات سے شیعہ لوگوں کی اس بات کی تردید ہو جاتی ہے کہ مہدی موعود قائم ومنتظر ہیں اور وہ حسن عسکری کے بیٹے محمد ہیں ۔
وہ تمام روئے زمین کو عدل وانصاف سے بھردے گا ۔ " کا مطلب یہ ہے کہ وہ ابنے زیر تسلط علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو پوری طرح عدل وانصاف سے نوازیں گے اور کسی بھی شخص کے ساتھ بے انصافی اور خلاف عدل کوئی سلوک نہیں ہوگا ! جاننا چاہئے کہ " یقسط " اور عدل دونوں کے معنی قریب قریب اور " عدل " کے معنی ہیں داد یعنی انصاف اور داد و انصاف کرنا ۔
اسی طرح " جور " کے معنی ہیں کسی کو ایسا حکم دینا جس سے اس پر ظلم وستم ہو اور اصل کے اعتبار سے " جور " اس کو کہتے ہیں کہ کسی چیز کو اس کے غیر محل میں رکھا جائے ۔ پس حدیث میں دونوں لفظوں کو دو الگ الگ معنی میں استعمال فرمایا ہے مثلا قسط سے مراد انصاف چاہنے والوں کو انصاف دینا ہے اور " عدل " سے مراد حقوق میں برابری اور مساوات ملحوظ رکھنا ہے اسی طرح ظلم سے مراد انصاف چاہنے والوں کو انصاف ملنا ہے اور " جور " سے مراد حقوق میں عدم مساوات اور نا برابری ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں