مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ جنت اور اہل جنت کے حالات کا بیان ۔ حدیث 192

حق تعالیٰ کی خوشنودی

راوی:

وعن أبي سعيد قا ل : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إن الله تعالى يقول لأهل الجنة يا أهل الجنة فيقولون لبيك ربنا وسعديك والخير كله في يديك فيقول : هل رضيتم ؟ فيقولون : وما لنا لا نرضى يا رب وقد أعطيتنا ما لم تعط أحدا من خلقك ؟ فيقول ألا أعطيكم أفضل من ذلك ؟ فيقولون : يا رب وأي شيء أفضل من ذلك ؟ فيقول : أحل عليكم رضواني فلا أسخط عليكم بعده أبدا " . متفق عليه

" اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ جنتیوں کو ( مخاطب کرنے کے لئے ) آواز دے گا کہ " اے جنتیو! " تمام جنتی ( یہ آواز سن کر ) جواب دیں گے کہ ہمارے پروردگار! ہم حاضر ہیں ، تیری خدمت میں موجود ہیں، تمام تر بھلائی تیرے ہی قبضہ قدرت اور ارادے میں ہے ( کہ جس کو چاہے عطا کرے ) ۔ اللہ تعالیٰ فرماے گا ( میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ ) کیا تم ( جنت کا انعام پاکر ( مجھ سے راضی وخوش ہو ؟ " وہ عرض کریں گے کہ پروردگار ! بھلا ہم آپ سے راضی وخوش کیوں نہیں ہوں گے ، آپ نے تو ہمیں وہ بڑی سے بڑی نعمت اور سرفرازی عطا فرمائی ہے جو اپنی مخلوق سے کسی کو بھی عطا نہیں کی اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا میں اس سے بھی بڑی اور اس سے بھی بہتر نعمت تمہیں عطا نہ کروں ؟ وہ کہیں گے کہ پروردگار ! اس سے بھی بڑی اور اس سے بھی بہتر نعمت اور کیا ہوگی ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : " میں تمہیں اپنی رضا وخوشنودی عطا کروں گا اور پھر تم سے کبھی نا خوش نہ ہوں گا ۔ " ( بخاری ومسلم )

تشریح :
مولیٰ کریم کا اپنے بندے سے راضی وخوش ہو جانا تمام نعمتوں اور سعادتوں کے حاصل ہوجانے کی ضمانت ہے لہٰذا جب پروردگار اہل جنت کے تئیں اپنی رضا و خوشنودی کا اظہار فرما دے گا تو گویا انہیں تمام ہی نعمتیں اور سرفرازیاں حاصل ہو جائیں گی اور عظیم ترین نعمت دیدار الہٰی ، بھی اسی کا ثمرہ ونتیجہ ہے ۔
پہلے حق تعالیٰ جنتیوں سے پوچھیں گے کہ آیا تم مجھ سے خوش و راضی ہو ؟ اور جب ان کی طرف سے اثبات میں جواب مل جائے گا تب حق تعالیٰ ان کے تئیں اپنی رضا وخوشنودی کا اظہار فرمائیں گے ۔ تاکہ واضح ہو جائے بندے سے اللہ تعالیٰ کے راضی وخوش ہونے کی دلیل وعلامت یہ ہے کہ وہ بندہ اللہ تعالیٰ کو راضی وخوش پاتا ہے تو سمجھ لینا چاہئے کہ اس کا پروردگار بھی اس سے راضی وخوش ہے منقول ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین آپس میں یہ بحث وتمحیص اور غور وفکر کیا کرتے تھے کہ اس بات کو جاننے کا ذریعہ کیا ہو سکتا ہے کہ ہمارا پروردگار ہم سے راضی وخوش ہے ؟ آخر کار انہوں نے اس پر اطلاق کیا کہ خود ہم اپنے رب سے راضی وخوش ہیں تو ہمیں یقین رکھنا چاہئے کہ ہمارا رب بھی ہم سے راضی وخوش ہے ۔
" اور پھر تم سے کبھی ناخوش نہ ہوگا ۔ " ظاہر ہے یہ اہل جنت کے حق میں سب سے بڑی سرفرازی کی بشارت ہوگی کہ ان کا پروردگار ہمیشہ ہمیشہ ان سے راضی وخوش رہے گا ۔ اس سعادت ونعمت سے بڑی سعادت ونعمت اور کیا ہو سکتی ہے ، حقیقت تو یہ ہے کہ حق تعالیٰ کی تھوڑی سی بھی رضا وخوشنودی پوری جنت اور جنت کی تمام نعمتوں اور سعادتوں سے بڑھ کر ہے چہ جائیکہ وہ رضا وخوشنودی مستقل طور پر اور ہمیشہ کے لئے حاصل ہو جائے ، خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ورضوان من اللہ اکبر لہٰذا ہر صاحب ایمان کو یہی التجا کرنی چاہئے کہ اللہم ارض عنا وارضنا عنک ( اے اللہ ! ہم سے راضی ہو جائیے اور ہمیں اپنے سے راضی کیجئے ۔

یہ حدیث شیئر کریں