مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ قیامت کی علامتوں کا بیان ۔ حدیث 21

امام مہدی کے ظہور کے پیشگوئی

راوی:

وعن أم سلمة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال يكون اختلاف عند موت خليفة فيخرج رجل من أهل المدينة هاربا إلى مكة فيأتيه الناس من أهل مكة فيخرجوه وهو كاره فيبايعونه بين الركن والمقام يبعث إليه بعث من الشام فيخسف بهم بالبيداء بين مكة والمدينة فإذا رأى الناس ذلك أتاه أبدال الشام وعصائب أهل العراق فيبايعونه ثم ينشأ رجل من قريش أخواله كلب فيبعث إليهم بعثا فيظهرون عليهم وذلك بعث كلب ويعمل الناس بسنة نبيهم ويلقي الإسلام بجرانه في الأرض فيلبث سبع سنين ثم يتوفى ويصلي عليه المسلمون . رواه أبو داود .
وعن أبي سعيد قال ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم بلاء يصيب هذه الأمة حتى لا يجد الرجل ملجأ يلجأ إليه من الظلم فيبعث الله رجلا من عترتي وأهل بيتي فيملأ به الأرض قسطا وعدلا كما ملئت ظلما وجورا يرضى عنه ساكن السماء وساكن الأرض لا تدع السماء من قطرها شيئا إلا صبته مدرارا ولا تدع الأرض من نباتها شيئا إلا أخرجته حتى يتمنى الأحياء الأموات يعيش في ذلك سبع سنين أو ثمان سنين أو تسع سنين . رواه .

اور حضرت ام سلمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ (آخر زمانہ میں ) جب خلیفہ (یعنی اس وقت کی حکومت کے سربراہ ) کا انتقال ہوگا تو ( دوسرے سربراہ کے انتخاب یا نامزدگی کے سوال پر اصحاب الرائے لوگوں کے درمیان ) اختلاف ونزاع اٹھ کھڑا ہوگا، اسی دوران اہل مدینہ میں سے ایک شخص (مدینہ سے ) نکل کر مکہ کی طرف بھاگ جائے گا ، مکہ کے لوگ جب اس شخص کے مرتبہ وحیثیت کو پہچانیں اور جانیں گے تو اس کے پاس آئیں گے اور اس کو ( گھر سے ) باہر نکال کر لائیں گے ( تاکہ اس کو اپنا سر براہ اور حاکم بنائیں ) وہ شخص اگرچہ ( فتنہ کے خوف سے ) یہ منصب قبول کرنے کو پسند نہیں کرے گا مگر لوگ ( منت سماجت کر کے اس کو تیار کریں گے اور اس کے ہاتھ پر بیعت کرلیں گے ، یہ بیت (خانہ کعبہ میں ) حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان عمل میں آئے گی، اس کے بعد اس کے مقابلہ پر شام (کے بادشاہ ) کی طرف سے ایک لشکر بھیجا جائے گا لیکن وہ لشکر مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع مقام بیداء پر زمین میں دھنسا دیا جائے گا ، اور پھر جب لوگوں کو یہ معلوم ہوگا کہ (شام کا لشکر مکہ پہنچنے سے پہلے ہی زمین بوس کر دیا گیا ہے ، تو ملک شام کے ابدال اور عراق کے عصائب اس شخص کی خدمت میں پہنچیں گے اور اس کے ہاتھ پر بیعت کر لیں گے پھر قریش میں سے ایک شخص اٹھے گا جس کے ننہیال قبیلہ کلب کی مدد حاصل کرے گا لیکن اس شخص کا لشکر اسی قریشی کے لشکر پر غالب آجائے گا پھر وہ شخص لوگوں کے درمیان ان کے پیغمبر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روش اور ان کے طریقہ کے مطابق (ملک وملت کا ) نظم ونسق چلائے گا اور مسلمانوں کا دین اپنی گردن زمین پر رکھدے گا وہ شخص سات سال تک قائم وبرقرار رہے گا ، پھر جان بحق ہو جائے گا اور مسلمان اس کی نماز جنازہ پڑھیں گے ۔ " ( ابوداؤد )

تشریح
حدیث میں جس ہستی کا ذکر کیا گیا ہے اس سے حضرت امام مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات گرامی مراد ہے ، اس کی دلیل یہ ہے کہ ابوداؤد نے اس روایت کو باب المہدی میں نقل کیا ہے ۔
مدینہ سے مراد یا تو مدینہ طیبہ ہے ، یا وہ شہر مراد ہے جہاں مذکورہ خلیفہ یا سربراہ حکومت کا انتقال ہوگا اور اس کے جانشین کے انتخاب پر لوگوں میں اختلاف ونزاع پیدا ہو جائے گا اس موقع پر حضرت امام مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مکہ بھاگ جانا، مذکورہ اختلاف ونزاع کے فتنہ سے بچنے کے لئے ہو گا، اور مکہ چلے جانے کو ترجیح اس لئے دیں گے کہ وہ شہر مقدس نہ صرف یہ کہ ہر اس شخص کے لئے جائے امن ہے جو اس میں پناہ لینے کا طالب ہو بلکہ سکون وعافیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہنے کی سب سے بہتر جگہ ہے ۔
بیداء اصل میں جنگل اور ہموار زمین کو کہتے ہیں اور مکان پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے لیکن یہاں حدیث میں بیداء سے ایک مقام مراد ہے جو مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع ہے ۔
شام کے لشکر سے مراد سفیانی کا لشکر ہے ، نیز اس لشکر کا امام مہدی کے خلاف محاذ آرائی کے لئے آنا دراصل سفیانی حکومت کا پیدا کردہ ایک فتنہ ہوگا جو حضرت امام مہدی کے ظاہر ہونے کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے اس بارے میں تقریبا تواتر کے ساتھ متعدد احادیث منقول ہیں ان میں سے ایک صحیح حدیث وہ ہے جس کو امیرالمؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اس طرح نقل کیا ہے کہ ۔ وہ سفیانی (جو آخر زمانہ میں شام کے علاقوں پر قابض و حکمران ہو گا) نسلی طور پر خالد ابن یزید ابن معاویہ ابن ابواسوی کی پشت سے تعلق رکھتا ہوگا ، وہ بڑے سر اور چیچک زدہ چہرے والا ہوگا ، اس کی آنکھ میں ایک سفید دھبہ ہوگا ، دمشق کی طرف اس کا ظہور ہوگا اس کے تابعداروں کی جماعت زیادہ تر قبیلہ کلب سے تعلق رکھنے والے لوگوں پر مشتمل ہوگی ، لوگوں کا خون بہانا اس کی خاص عادت ہوگی ، یہاں تک کہ وہ حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کر کے بچوں کو ہلاک کر دیا کرے گا ، وہ جب حضرت امام مہدی کے ظہور کی خبر سنے گا تو ان سے جنگ کرنے کے لئے ایک لشکر بھیجے گا جو شکست کھا جائے گا ، اس کے بعد وہ سفیانی بذات خود ایک لشکر لے کر حضرت امام مہدی کے مقابلہ کے لئے چلے گا لیکن وہ مقام بیداء پر پہنچ کر اپنے تمام لشکر والوں کے ساتھ زمین میں دھنس جائے گا اور کوئی بھی شخص زندہ نہیں بچے گا صرف ایک وہ شخص بچ جائے گا جو حضرت امام مہدی کو سفیانی اور اس کے لشکر کے عبرتناک حشر کی خبر پہنچائے گا ۔
" ابدال " اولیاء اللہ کے ایک گروہ کو کہتے ہیں جن کی برکت سے اللہ تعالیٰ اس کائنات کے نظام کو برقرار اور استوار رکھتا ہے دنیا میں کل ابدال کی تعداد ستر رہتی ہے، اس میں چالیس ابدال تو شام میں رہتے ہیں اور تیس ابدال باقی ملکوں میں ان اولیاء اللہ کو ابدال اس لئے کہا جاتا ہے کہ ان کی ادلی بدلی ہوتی رہتی ہے، یعنی جب ان میں سے کوئی مر جاتا ہے تو اس کے بدلے میں کوئی دوسرا مقرر کر دیا جاتا ہے یا ان کو ابدال اس اعتبار سے کہتے ہیں کہ وہ ایسی مقدس ہستیاں ہیں جو عبادت و ریاضت کے ذریعہ ابنے اندر سے تمام بری عادتیں اور نا پسندیدہ خصلتیں ختم کر دیتے ہیں اور ان کے بدلے میں اچھی عادتیں اور اعلیٰ اخلاق پیدا کر لیتے ہیں ! اس مقدس گروہ کے بارے میں احادیث میں ذکر آیا ہے گو سیوطی نے سنن ابوداؤد کی شرح میں لکھا ہے کہ ابدال کا ذکر صحاح ستہ میں نہیں آیا ہے علاوہ ابوداؤد کی اس حدیث کے جو یہاں نقل ہوئی ہے، اس حدیث کو حاکم نے بھی نقل کیا ہے اور اس کو صحیح قرار دیا ہے، تاہم سیوطی نے صحاح ستہ کے علاوہ دوسری مستند و معتبر کتابوں سے ایسی بہت سی احادیث کو جمع الجوامع میں نقل کیا ہے جن میں ابدال کا ذکر ہے ، ان میں سے اکثر احادیث میں چالیس کا عدد مذکور ہے اور بعض میں تیس کا انہوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ایک یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ ابدال نے جو یہ اعلیٰ درجہ پایا ہے وہ بہت زیادہ نماز روزہ کرنے کی وجہ سے نہیں پایا ہے اور نہ ان عبادتوں کی وجہ سے ان کو تمام لوگوں سے ممتاز کیا گیا ہے بلکہ انہوں نے اتنا اعلیٰ درجہ سخاوت نفس، سلامتی دل اور مسلمانوں کی خیر خواہی رکھنے کی وجہ سے پایا ہے نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ علی ! میری امت میں ایسے لوگوں کا وجود کہ جو ابدال کی صفت کے حامل ہوں، سرخ گندھک سے بھی زیادہ نادر ہے یعنی جس طرح سرخ گندھک بہت کمیاب چیز ہے اسی طرح دنیا میں ابدال بھی کم ہیں ۔ " ایک اور حدیث میں، جو حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے ، یہ فرمایا گیا ہے کہ جس شخص میں تین صفتیں یعنی رضا بالقضاء ، ممنوعات سے کلی احتراز اور اللہ کے دین کی خاطر غصہ کرنا ، پائی جائیں اس کا شمار ابدال کی جماعت میں ہوتا ہے ؟ نیز امام غزالی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے احیاء العلوم میں نقل کیا ہے کہ جو شخص روزانہ تین مرتبہ یہ دعا پڑھنے کا التزام رکھے اس کے لئے ابدال کا درجہ لکھا جا سکتا ہے ، دعا یوں ہے :
آیت ( اللہم اغفر لا مۃ محمد ، اللہم ارحم امۃ محمد ، اللہم تجاوز عن امۃ محمد ۔
" اے اللہ ! امت محمدی کی مغفرت فرما ، اے اللہ امت محمدی پر رحم فرما ، اے اللہ امت محمدی کے گناہوں سے درگذر فرما ۔ "
حاصل یہ ہے کہ جو شخص اپنے اندر سے تمام انسانی واخلاقی برائیاں بدل ڈالے اپنے نفس کو پوری طرح پاکیزہ اور مہذب بنا لے اور مخلوق الٰہی کا خیر خواہ ہو جائے ، تو اس کا شمار ابدال کی جماعت میں ہوگا ۔
" عصائب " بھی اولیاء اللہ کے ایک گروہ کا نام ہے جیسا کہ ابدال ! حضرت علی کرمہ اللہ وجہہ سے منقول ہے کہ ابدال شام کے ملک میں رہتے ہیں ، عصائب عراق کے ملک میں اور نجبا مصر کے ملک میں ( ابدال اور عصائب کی طرح نجباء بھی اولیاء اللہ کی قسموں میں سے ایک قسم ہے ) نیز بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ " عصائب " ان لوگوں کو کہتے ہیں جو اپنے معاشرہ میں سب سے زیادہ، عابد و زاہد اور نیک ہوں یہ وضاحت غالباً لغوی معنی کے اعتبار سے ہے ، کیونکہ لغت میں " عصب القوم " قوم کے نیک ترین لوگوں کو کہتے ہیں ۔
قبیلہ کلب کی لشکر آرائی اور اس کی طرف سے قتل وقتال کا واقع ہونا آخر زمانہ میں ایک " فتنہ " کے طور پر ظاہر ہوگا اور یہ فتنہ بھی حضرت امام مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ظہور کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے ۔
" اور مسلمانوں کا دین اپنی گردن پر رکھ دے گا " کا مطلب یہ ہے کہ دین اسلام قائم اور پائیدار ہو جائے گا ' شریعت کی فرمانروائی پورے سکون واطمینان کے ساتھ جاری ہو جائے گی اور تمام مسلمان آسودگی واطمینان کے ساتھ زندگی گذاریں گے واضح رہے کہ " جران " اونٹ کی گردن کے اس اگلے حصہ کو کہتے ہیں جو ذبح کی جگہ سے نحر کی جگہ تک ہوتا ہے ، اونٹ جب چلتے چلتے ٹھہر جاتا ہے اور آرام لینے کے لئے بیٹھتا ہے تو اپنی گردن کے اس حصہ کو زمین پر دراز کر دیتا ہے جس سے اس کو بہت راحت ملتی ہے پس یہاں دین کو اونٹ کی گردن سے تشبیہہ دینے کا مقصد اس طرف اشارہ کرنا ہے کہ حضرت امام مہدی کے زمانہ میں اسلام کو ثبات وقرار مل جائے گا کہ مسلمانوں کے درمیان کوئی خلفشار نہیں ہوگا ، باہمی مخالفت ومناقشت اور جنگ وجدال کا نام ونشان تک مٹ جائے گا ، دین واسلام کی برتری ، احکام سنت کی پابندی اور ملی نظام کی خوشحالی کا دور دورہ ہوگا ۔

یہ حدیث شیئر کریں