مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ دیدار الٰہی کا بیان ۔ حدیث 228

حضرت ابن مسعود کی تفسیر وتحقیق :

راوی:

وعن ابن مسعود في قوله : ( فكان قاب قوسين أو أدنى )
وفي قوله : ( ما كذب الفؤاد ما رأى )
وفي قوله : ( رأى من آيات ربه الكبرى )
قال فيها كلها : رأى جبريل عليه السلام له ستمائة جناح . متفق عليه
وفي رواية الترمذي قال : ( ما كذب الفؤاد ما رأى )
قال : رأى رسول الله صلى الله عليه و سلم جبريل في حلة من رفرف قد ملأ ما بين السماء والأرض
وله وللبخاري في قوله : ( لقد رأى من آيات ربه الكبرى )
قال : رأى رفرفا أخضر سد أفق السماء
وسئل مالك بن أنس عن قوله تعالى ( إلى ربها ناظرة )
فقيل : قوم يقولون : إلى ثوابه . فقال مالك : كذبوا فأين هم عن قوله تعالى : ( كلا إنهم عن ربهم يومئذ لمحجوبون )
؟ قال مالك الناس ينظرون إلى الله يوم القيامة بأعينهم وقال : لو لم ير المؤمنون ربهم يوم القيامة لم يعير الله الكفار بالحجاب فقال ( كلا إنهم عن ربهم يومئذ لمحجوبون )
رواه في " شرح السنة "

اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد (فکان قاب قوسین او ادنی) اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد (مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى) 53۔ النجم : 11) اور اللہ تعالیٰ اس ارشاد (لَقَدْ رَاٰى مِنْ اٰيٰتِ رَبِّهِ الْكُبْرٰى) 53۔ النجم : 18) ان سب آیتوں کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو ان کی اصل صورت میں دیکھا اور درآنحالیکہ ان کے چھ سو بازو تھے ۔ اور ترمذی کی روایت میں یوں ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد (مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى) 53۔ النجم : 11) کی تفسیر میں کہا : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو دیکھا جو سبز کپڑوں کا جوڑا پہنے ہوئے تھے اور زمین کے درمیانی فضا ان سے معمور تھی ۔ نیز ترمذی اور بخاری کی ایک روایت میں اس طرح ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد (مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى) 53۔ النجم : 11) کی تفسیر میں کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جامہ سبز پوش یعنی حضرت جبرائیل علیہ السلام کو دیکھا جنہوں نے پورے آسمانی افق کو گھیر رکھا تھا ۔ اور حضرت امام مالک بن انس سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد الی ربہاناظرۃ کے بارے میں پوچھا گیا اور ان کو بتایا گیا کہ کچھ لوگ یعنی معتزلہ اور ان کے ہمنوا دیگر اہل بدعت کہتے ہیں کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی طرف دیکھنے سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات کو دیکھنا نہیں ہے بلکہ اس کے ثواب کو دیکھنا مراد ہے ؟ تو حضرت امام مالک نے فرمایا کہ وہ لوگ جھوٹے ہیں ، آخر ان کی سمجھ کہاں چلی گئی ہے !وہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کلاانہم عن ربہم یؤمئذ لمحجوبون کو کیوں نہیں دیکھتے پھر حضرت امام مالک نے فرمایا اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلمان لوگ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے اور فرمایا : اگر یہی بات ہوتی کہ اہل ایمان قیامت کے دن اپنے پروردگار کو نہیں دیکھیں گے تو اللہ تعالیٰ کفار کو دیدار الہٰی سے محرومی کا عار نہ دلاتا اور یہ نہ فرماتا کہ (كَلَّا اِنَّهُمْ عَنْ رَّبِّهِمْ يَوْمَى ِذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَ) 83۔ المطففین : 15) اس روایت کو بغوی نے شرح السنۃ میں نقل کیا ہے۔

تشریح :
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ اسلام کو دیکھا " کے ذریعہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ واضح کیا کہ سورت نجم کی ان آیتوں کی ضمیریں حضرت جبرائیل علیہ السلام کی طرف راجع ہیں اور ان کا محمول ومصداق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت جبرائیل علیہ السلام کی رویت قرب ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کی رویت وقرب مراد ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں ۔ پس حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ تاویل وتفسیر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی اس تاویل وتفسیر کے مطابق ہے جو ان آیتوں سے متعلق پچھلی حدیث میں ذکر کی گئی ۔ واضع رہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جلالت شان اور ان کا کمال علم مسلمہ ہے اور علماء نے لکھا ہے کہ خلفاء اربعہ کے بعد ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی تمام صحابہ میں سب سے بڑے عالم تھے ۔
بہرحال ان روایات واقوال سے معلوم ہوا کہ شب معراج میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ تعالیٰ کو بچشم سر دیکھنے کے بارے میں صحابہ کرام کے ہاں اختلاف ہے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اس بات سے انکار ہے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما اس کے قائل ہیں ، ان میں سے ہر ایک کو صحابہ کرام کی تائید حاصل ہے کہ کچھ صحابہ کرام تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ ہیں اور کچھ صحابہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے ساتھ ، پھر صحابہ کے بعد تابعین وعلماء سلف بھی اسی نقش قدم پر گئے ہیں ۔ کچھ تو یہ کہتے ہیں کہ شب معراج میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کچھ حضرات اس کا انکار کرتے ہیں ، لیکن ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے سکوت وتوقف اختیار کیا ہے اور کسی بھی فریق کے ساتھ نہیں گئے ہیں ، ان حضرات کا کہنا ہے کہ دونوں میں سے کسی جانب بھی واضح دلیل نہیں ہے اس لئے ہم یہی بہتر سمجھتے ہیں کہ اس مسئلہ میں خاموش رہا جائے اور حقیقت حال اللہ تعالیٰ کے سپرد کردی جائے کہ اصل بات اس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تاہم جمہور علماء اسی کے قائل ہیں کہ شب معراج میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا عینی دیدار حاصل ہوا ہے ، حضرت شیخ محی الدین نووی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اکثر علماء کبار کے نزدیک راحج اور مختار یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات میں اپنے پروردگار کو سر کی آنکھوں سے دیکھا ۔ نیز انہوں نے کہا کہ اس کا اثبات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سماعت کے بعد ہی ہوا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے جو یہ کہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شب معراج میں اللہ تعالیٰ کا دیدار حاصل ہوا تو انہوں نے یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے کے بعد ہی کہی تھی ، جب کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس کے انکار میں حدیث سے استدلال نہیں کیا ہے اور اس بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سن کر روایت نہیں کیا ہے بلکہ انہوں نے جو کچھ کہا ہے وہ قرآن کی اس آیت (وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحْيًا اَوْ مِنْ وَّرَا ي ِ حِجَابٍ) 42۔ الشوری : 51) اور اس آیت (لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ ) 6۔ الانعام : 103) سے ان کے اپنے استنباط اجتہاد کا نتیجہ ہے جب کہ ان آیتوں کے بارے میں بھی ائمہ مفسرین نے لکھا ہے کہ پہلی آیت (وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحْيًا اَوْ مِنْ وَّرَا ي ِ حِجَابٍ ) 42۔ الشوری : 51) میں جو نفی بیان کی گئی ہے وہ حالت رویت میں کلام کی نفی ہے جس سے رؤیت بے کلام کی نفی قطعا لازم نہیں آتی اور دوسری آیت لاتدرکہ الابصار الخ میں ادراک کا ذکر ہے جس کے معنی احاطہ کے ہیں اور احاطہ کی نفی سے مطلق رویت کی نفی مفہوم نہیں ہوتی بعض دوسرے علماء نے بھی لکھا ہے کہ مذکورہ مسئلہ میں حضرت ابن عباس ہی قول پر زیادہ اعتماد کیا جاتا ہے اور یہ طے ہے کہ انہوں نے یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنے بغیر نہیں کہی تھی اور یہ ممکن بھی نہیں کہ وہ اتنی بڑی بات اپنے ظن واجتہاد سے کہیں ، منقول ہے کہ حضرت ابن عمر نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے کافی بحث وتکرار کی اور پوچھا کہ کیا واقعتہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پروردگار کو دیکھا تھا ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے پورے وثوق کے ساتھ جواب دیا کہ ہاں دیکھا تھا چنانچہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی بات کو قطعی طور پر تسلیم کیا اور کسی ترددوانکار کا اظہار نہیں کیا ۔ حضرت عمر ابن راشد کا قول ہے کہ ہمارے نزدیک حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے زیادہ علم کی حامل نہیں ہیں اس لئے ان کے مقابلہ پر حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہی کے قول کو راجح اور قابل اعتماد قرار دیا جائے گا ، نیز مشائخ صوفیہ بھی رویت ہی کے قائل ہیں ۔
اب امام مالک کی روایت کی طرف آئیے جب ان کو بتایا گیا کہ کچھ لوگ جسے معتزلہ یہ کہتے ہیں کہ آخرت میں اہل ایمان اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھیں گے اور قرآن کی اس آیت (اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ) 75۔ القیامۃ : 23) کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی ذات کو دیکھنے کے بجائے اس کے ثواب یعنی جنت کی نعمتوں اور وہاں کے مراتب ودرجات کو دیکھنا مراد ہے تو امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے ان لوگوں کی زبردست تردید کی اور فرمایا کہ وہ لوگ عقل وسمجھ سے کو سوں دور ہیں کہ بالکل ظاہر معنی رکھنے والی اس آیت کی غلط تاویل تو کرتے ہیں لیکن اس آیت کلا انہم عن ربہم یؤمئذ المحجوبون کو نہیں دیکھتے جس میں اہل کفر کو اسی بات کا عار دلایا گیا ہے کہ وہ قیامت کے دن پروردگار کے دیدار سے روک دئیے جائیں گے اور وہ اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی سعادت سے محروم رہینگے جس کاصاف مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان اللہ تعالیٰ کو دیکھیں گے اور اس کے دیدار کی سعادت سے مشرف ہوں گے اگر یہی بات ہو تو اہل ایمان اللہ تعالیٰ کے دیدار کی سعادت حاصل نہیں کریں گے تو پھر اہل کفار کو اس سعادت سے محرومی اس بھر پور انداز میں خبر دینے اور انہیں عار دلانے کی کیا ضرورت تھی معلوم ہوا کہ آخرت میں اہل کفار کے حق میں سب سے بڑا عذاب یہ ہوگا کہ وہ دیدار الہٰی سے محروم ومخذول قرار دیئے جائیں گے اور ہمیشہ ہمیشہ اس محرومی کی حسرت میں مبتلا رہیں گے جس طرح کہ اہل ایمان کے حق میں سب سے بڑا اجر وثواب دیدار الہٰی ہوگا اور وہ نعمت دیدار سے محظوظ ومشرف ہونگے۔

یہ حدیث شیئر کریں