مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ دوزخ اور دوزخیوں کا بیان ۔ حدیث 250

عذاب دوزخ سے آگاہی :

راوی:

وعن النعمان بن بشير قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : " أنذرتكم النار أنذرتكم النار " فما زال يقولها حتى لو كان في مقامي هذا سمعه أهل السوق وحتى سقطت خميصة كانت عليه عند رجليه . رواه الدارمي

اور حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا (لوگو!) میں نے تم کو دوزخ کی آگ سے ڈرایا ، میں نے تم کو دوزخ کی آگ سے ڈرایا ۔" آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ باربار فرما رہے تھے (اور ایک عجیب کیفیت کے عالم میں جھوم جھوم کر اتنی بلند آواز سے فرما رہے تھے کہ ) اگر آپ اس جگہ تشریف فرما ہوتے جہاں اس وقت میں بیٹھا ہوں تو یقینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز بازار والے سنتے یہاں تک کہ اس وقت ( اس جھومنے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کالی کملی جو کاندھے پر پڑی تھی پیروں میں گر پڑی تھی ۔"

تشریح :
میں نے تم کو دوزخ کی آگ سے ڈرایا ۔" کا مطلب یہ تھا کہ میں نے تم کو عذاب دوزخ کے وقوع پذیر ہونے کی خبر دی ۔ اس عذاب کی شدت وسختی سے آگاہ کردیا کھول کھول کر یہ بیان کردیا کہ عقیدہ وعمل کا کونسا راستہ دوزخ کی طرف لیجاتا ہے اور کون سا راستہ اس سے بچاتا ہے اور میں نے کتنی ہی وہ مختلف صورتیں بتا دی ہیں جن کو تم اپنی استطاعت وطاقت کے بقدر اختیار کرکے دوزخ کی آگ سے محفوظ رہ سکتے ہو ، میں نے یہاں تک کہا ہے کہ اتقواالنارولو بشق تمرۃ ۔ یعنی (صدقہ وخیرات دوزخ سے بچانے والے ہیں ) اگر تم کھجور کا ایک ٹکڑا ہی صدقہ وخیرات کرسکتے ہو تو وہی صدقہ وخیرات کرکے دوزخ کی آگ سے بچواب اگر اس کے بعد بھی تم میں سے کوئی شخص دوزخ کے عذاب سے نہیں ڈرتا اور ایسے راستے اختیار کرتا ہے جو اس کو سیدھا دوزخ میں لے جانے والے ہیں ، تو وہ شخص جانے ۔

یہ حدیث شیئر کریں