مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ جنت اور دوزخ کی تخلیق کا بیان۔ ۔ حدیث 271

حضرموسی علیہ السلام اور ایذاء بنی اسرائیل :

راوی:

وعنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إن موسى كان رجلا حييا ستيرا لا يرى من جلده شيء استحياء فآذاه من آذاه من بني إسرائيل فقالوا : ما تستر هذا التستر إلا من عيب بجلده : إما برص أو أدرة وإن الله أراد أن يبرئه فخلا يوما وحده ليغتسل فوضع ثوبه على حجر ففر الحجر بثوبه فجمع موسى في إثره يقول : ثوبي يا حجر ثوبي يا حجر حتى انتهى إلى ملأ من بني إسرائيل فرأوه عريانا أحسن ما خلق الله وقالوا : والله ما بموسى من بأس وأخذ ثوبه وطفق بالحجر ضربا فوالله إن بالحجر لندبا من أثر ضربه ثلاثا أو أربعا أو خمسا " . متفق عليه

" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : حضرت موسی علیہ السلام ایک نہایت شرمیلے اور سخت پردہ کا اہتمام رکھنے والے آدمی ، ان پر شرم وحیا کا اتنا غلبہ تھا کہ (پورے بدن کو ہروقت ڈھانپے رہتے تھے اور ) ان کے جسم کی کھال کا کوئی بھی حصہ دکھائی نہ دیتا تھا، ایک مرتبہ بنی اسرائیل کے کچھ لوگوں نے ان کو ایذاء اور رنج پہنچانا چاہا تو انہوں نے مشہور کردیا کہ حضرت موسی علیہ السلام اپنے جسم کو اس قدر احتیاط واہتمام کے ساتھ اس لئے ڈھانپے رہتے ہیں کہ ان کے جسم میں کوئی عیب ہے ، یا تو برص (کوڑھ ) ہے یا خصیے پھولے ہوئے ہیں (جب یہ بات بہت پھیل گئی تو ) اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ جو عیب حضرت موسی علیہ السلام پر لگایا جارہا ہے اس سے ان کو محفوظ ومامون رکھے اور ان کی بے عبیی کو ظاہر وثابت کرے ، چنانچہ ایک دن جب کہ حضرت موسی علیہ السلام ایک پوشیدہ جگہ نہانے کے لئے گئے اور اپنے کپڑے اتار کر ایک پتھر پر رکھے دیئے تو وہ پتھر ان کے کپڑوں کو لے کر بھاگا ، حضرت موسی علیہ السلام نے (یہ ماجرا دیکھا تونہایت حیرانی واضطراب کے عالم میں ) اس پتھر کے پیچھے یہ کہتے ہوئے دوڑے کہ اے پتھر میرے کپڑے دے ، ارے او پتھر میرے کپڑے دے، یہاں تک کہ (آگے آگے پتھر اور اس کے پیچھے پیچھے ) حضرت موسی علیہ السلام دوڑتے ہوئے بنی اسرائیل کے لوگوں کے ہجوم تک پہنچ گئے ، ہجوم نے حضرت موسی علیہ السلام کا برہنہ جسم دیکھا تو ان کو اللہ کی مخلوق میں ایک بہترین اور بے عیب جسم کا انسان پایا ، تب انہوں نے (بیک آواز ) کہا کہ اللہ کی قسم ، موسی کا بدن کسی بھی عیب ونقصان سے مبرا ہے ، اور حضرت موسی علیہ السلام نے پتھر کو (لاٹھی سے ) مارنا شروع کیا ، اللہ کی قسم حضرت موسی علیہ السلام کے مارنے کی وجہ سے اس پتھر پر نشان پڑگئے ، تین نشان یاچار نشان یا پانچ نشان ۔" ( بخاری ومسلم)

تشریح :
بنی اسرائیل اپنے پیغمبر حضرت موسی علیہ السلام کو کس طرح سخت اذیت وتکلیف پہنچاتے تھے اس کا اندازہ اس حدیث میں مذکورہ واقعہ سے کیا جاسکتا ہے ، بت پرستی کی فرمائش ، گوسالہ پرستی میں انہماک ، قبول تورات سے انکار ، ارض مقدس میں داخلہ سے انکار اور من وسلوی پر ناسپاسی حتیٰ کہ ان کی ذات پر بہتان ترازی اور تہمت تراشی ایسی کونسی قولی فعلی ایذاء تھی جو ان کی طرف سے حضرت موسی علیہ السلام کو نہیں پہنچی یہ حضرت موسی علیہ السلام کی اولو العزمی اور ان کے صبر وضبط کا کمال تھا کہ وہ اپنی قوم کی ہر ایذاء کو برداشت کرتے اور اپنے اللہ کی طرف سے رشدوہدایت کے پیغام میں انہماک کے جذبہ عمل کو سرد نہیں ہونے دیتے تھے ، اور ان کے اللہ کا ان پر انعام تھا کہ ہرمرحلہ پر اس نکمی اور پست قوم کے مقابلہ پر ان کو سرخ روئی اور عزت عطاہوئی تھی ۔ جب بدبخت قوم کے لوگوں نے ان کے وصف شرم وحیا کی تحسین وتقلید کے بجائے ان کی ذات کو عیب دار بنانے کا بیڑا اٹھا لیا اور پوری قوت کے ساتھ یہ مشہور کردیا کہ حضرت موسی علیہ السلام اپنے جسم کو زیادہ چھپاتے ہیں اور اپنے بدن کے ان حصوں پر بھی نگاہ نہیں پڑنے دیتے جو ستر میں شامل نہیں ہیں یہاں تک کہ سب کی نظروں سے چھپ کرتنہائی میں نہاتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے حصہ جسم پر برص کے داغ ہیں ، یا ان کے خصیے پھول گئے ہیں ، یا کوئی اسی قسم کا خراب مرض ان کو لاحق ہے چنانچہ حق تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ حضرت موسی علیہ السلام کے بے عیب اور باوجاہت بدن کا عام مشاہدہ کرادیا جائے تاکہ لوگ اپنی آنکھوں سے حقیقت حال کو دیکھ لیں اور ایک رسواکن شہرت کی قلعی کھل جائے اس طرح پتھر کا کپڑا لے کر بھاگنے کا وہ واقعہ پیش آیا جس کا حدیث میں ذکر ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ مخلوق کی ہدایت اور دینی خدمت کی راہ میں سرگرم عمل رہنے والے اپنے برگزیدہ بندوں کو ہر اس عیب اور نقصان سے آخر کار بری اور پاک ثابت کردیتا ہے ، جو ان کے مخالف اور نادان لوگ ان کی طرف منسوب کرکے ان کو متہم کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے بندوں کے ساتھ یہ خصوصی معاملہ اس لئے کرتا ہے تاکہ وہ عام لوگوں کی نگاہ میں معززومکرم ہوں اور ان کی شخصی وجاہت الزامات واتہامات کے گردوغبار سے صاف رہے ۔" مارنے کی وجہ سے اس پتھر پر نشان پڑگئے ۔ ۔ ۔ ۔ " یعنی جب وہ پتھر حضرت موسی علیہ السلام کے کپڑے لے کر بھاگا تو ان پر اس اچانک واقعہ کا ایسا اثر پڑا کہ وہ غصہ میں جھنجھلا کر پتھر پر لاٹھی کے وار کرنے لگے ، اور جب بھی ان کی لاٹھی پتھر پر پڑتی اس پر نشان پڑجاتا، اس طرح جتنی بار انہوں نے لاٹھی ماری اتنے ہی نشان اس پتھر پر پڑگئے اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ جب حضرت موسی علیہ السلام گبھراہٹ اور غصہ میں اس پتھر کے پیچھے بھاگے اور آخر کار وہ پتھر بنی اسرائیل کے ایک بڑے مجمع کے سامنے ٹھیرگیا تو حضرت موسی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی حکم ہوا کہ اس پتھر کو اٹھا کر اپنے ساتھ اس کے ساتھ رہا اور جب وہ بنی اسرائیل کے ساتھ تیہ کے میدان (صحراء سینا ) میں پہنچے تو اس وقت انہوں نے پتھر پر لاٹھی سے ایک ضرب یا کئی ضربیں لگائیں اور پتھر میں سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے ۔ اس قول کا حاصل یہ ہے کہ قرآن کریم میں حضرت موسی علیہ السلام کا یہ معجزہ بیان کیا گیا ہے کہ جب بنی اسرائیل صحراء سینا میں پہنچ کر اس خیال سے گھبرا اٹھے کہ اس بے آب وگیاہ میدان میں پانی کہاں سے پئیں گے اور پھر حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سم اپناعصا ایک پہاڑی چٹان پر مارا جس کے نتیجہ میں فورا بارہ سوت ابل پڑے اور بنی اسرائیل کے بارہ قبائل کے لئے جدا جدا چشمے جاری ہوگئے تو اس" پہاڑی چٹان " سے مراد وہی پتھر ہے جو حضرت موسی علیہ السلام کے کپڑے لے کر بھاگا تھا اور جس کو حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنے ساتھ رکھ چھوڑا تھا ۔ بہرحال حدیث سے حضرت موسی علیہ السلام کے دو معجزے ثابت ہوئے ایک تو بے جان پتھر کا حرکت میں آجانا اور چلنے لگنا اور دوسرا حضرت موسی علیہ السلام کی لاٹھی کی ضرب سے اس پتھر پر نشان پڑجانا ۔ نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ پوشیدہ جگہ پر ننگے بدن نہانا جائز ہے اگرچہ ایسی جگہ نہاتے وقت بھی ستر ڈھاکنا افضل ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ مخالفین اور نادانوں کی ایذاء انبیاء اولیاء اللہ پر اثر انداز ہوتی ہے اور وہ اس سے تکلیف محسوس کرتے ہیں لیکن اس ایذاء پر صبروضبط کرتے ہیں ۔

یہ حدیث شیئر کریں