مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ جنت اور دوزخ کی تخلیق کا بیان۔ ۔ حدیث 279

انبیاء علیہ السلام کے حلیے :

راوی:

وعن ابن عباس عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " رأيت ليلة أسري بي موسى رجلا آدم طوالا جعدا كأنه شنوءة ورأيت رجلا مربوع الخلق إلى الحمرة والبياض سبط الرأس ورأيت مالكا خازن النار والدجال في آيات أراهن الله إياه فلا تكن في مرية من لقائه " . متفق عليه

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں شب معراج میں حضرت موسی علیہ السلام کو دیکھا وہ گندم گوں اور دراز قد تھے ان کے بال خمدار تھے اور (جسم وبدن کا اعتبار سے ) قبیلہ شنوہ کے کسی آدمی کی طرح نظر آتے تھے اور میں نے عیسی علیہ السلام کو دیکھا وہ خلقی طور پر متوسط قدوقامت کے تھے (نہ بہت لمبے تھے نہ ٹھگنے ، اور نہ بہت موٹے تھے نہ دبلے ) ان کا رنگ سرخ سفید تھا (جیسے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک کا رنگ تھا ) اور ان کے سر کے بال سیدھے (یعنی گھونگھریالے نہیں ) تھے اور میں نے دوزخ کے دورغہ مالک کو اور دجال کو بھی دیکھا !" اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ان سب کو دیکھنا قدرت الہٰی کی ان نشانیوں اور علامتوں کے ضمن میں تھا جو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو (شب معراج میں ) دیکھائیں اس لئے (اے اس حدیث کو پڑھنے اور سننے والے ) اس امر میں کوئی شک وشبہ نہ کر ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو دیکھا اور ملاقات فرمائی ۔" (بخاری)

تشریح :
" جعد" کے معنی ہیں بالوں کا گھونگھریالہ ہونا ۔ اور اس کے مقابلہ پر " سبط " کے معنی ہیں بالوں کا سیدھا ہونا پس یہاں مراد یہ ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام کے بال سیدھے نہیں تھے بلکہ خمدار تھے یعنی گھونگھریالے نظر آتے تھے اور حضرت شیخ عبد الحق دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی شرح میں " جعد" کے تحت لکھا ہے کہ اس لفظ (جعد) کا اکثر اطلاق گھونگھریالے بالوں پر ہوتا ہے مگر کبھی کبھی یہ لفظ " مضبوط اور گٹھے ہوئے بدن " کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور یہاں حدیث میں یہ لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی حضرت موسی علیہ السلام ایک گٹھے ہوئے بدن کے آدمی تھے ۔ حضرت شیخ نے " جعد " کے یہ معنی مراد لینے کی وجہ یہ لکھی ہے کہ اگلی حدیث میں حضرت موسی علیہ السلام کے بارے میں منقول ہے کہ وہ رجل الشعر " تھے اور " رجل " کا اطلاق ایسے بالوں پر ہوتا ہے جو گھونگھریالے نہ ہوں ۔ اس کی وضاحت اگلی حدیث میں آرہی ہے ۔
روایت کا یہ جملہ فی ایات ارہن اللہ ایاہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا جزء نہیں ہے ، نیز یہ ذریعہ قرآن کریم کی اس آیت کی طرف اشارہ مقصود ہے ۔
ولقد اتینا موسی الکتب فلاتکن فی مریۃ من لقاہ
' اور ہم نے موسی علیہ السلام کو کتاب دی تھی ، سو (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ شب معراج میں ) موسی علیہ السلام کے ملنے میں کچھ شک نہ کیجئے ۔
یعنی آپ موسی علیہ السلام سے شب معراج میں ملے تھے ، وہ سچی حقیقت ہے کوئی دھوکا یا نظر بندی نہیں ۔ لہٰذا مذکورہ جملہ سے اس آیت کی طرف اشارہ کرکے ہر ایک کو آگاہ کیا گیا کہ جب قرآن سے بھی یہ ثابت ہے کہ شب معراج میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت موسی علیہ السلام سے ملنا ایک سچی حقیقت ہے تو کوئی بھی اس شک وشبہ کا شکار نہ ہو ۔

یہ حدیث شیئر کریں