مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ جنت اور دوزخ کی تخلیق کا بیان۔ ۔ حدیث 283

ایک قضیہ میں حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے الگ الگ فیصلے :

راوی:

وعنه عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " كانت امرأتان معهما ابناهما جاء الذئب فذهب بابن إحداهما فقالت صاحبتها : إنما ذهب بابنك . وقالت الأخرى : إنما ذهب بابنك فتحاكما إلى داود فقضى به للكبرى فخرجتا على سليمان بن داود فأخبرتاه فقال : ائتوني بالسكين أشقه بينكما . فقالت الصغرى : لا تفعل يرحمك الله هو ابنها فقضى به للصغرى " متفق عليه

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانہ کا یہ قصہ بیان فرمایا کہ دو عورتیں تھیں اور ان دونوں کے پاس ایک ایک لڑکا تھا، (ایک دن ) ایک بھڑیا آیا ، اور ان میں سے ایک عورت کے لڑکے کو اٹھا کر لے گیا ، (اب دونوں نے آپس میں جگڑنا شروع کیا ، ایک نے کہا کہ بھڑیا جس لڑکے کو لے گیا ہے وہ تیرا تھا ، اور دوسری نے کہا کہ نہیں وہ تیرا لڑکا تھا ، آخر کار دونوں اپنا مقدمہ لے کر حضرت داؤد علیہ السلام کے پاس پہنچیں اور حضرت داؤد علیہ السلام نے (دونوں کے بیانات سن کر ) موجود لڑکا بڑی عمر کی عورت کو دلوادیا ، پھر وہ دونوں عورتیں حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس آئیں اور ان سے (پورا قضیہ اور حضرت داؤد علیہ السلام کا فیصلہ ) بیان کیا (نیز انہوں نے حضرت سلیمان علیہ السلام سے اپنا فیصلہ دینے کا کہا ) حضرت سلیمان علیہ السلام نے (صورت واقعہ کی نزاکت اور پیچدگی کو سمجھ کر (اپنے خادموں سے ) کہا کہ ذرا چھری اٹھا لاؤ میں اس لڑکے کو بیچ میں سے دو ٹکڑے کر کے ان دونوں عورتوں میں بانٹ دوں گا ۔چھوٹی عمر کی عورت (نے ان کا یہ فیصلہ سنا تو تڑپ اٹھی اور کہنے لگی : اللہ آپ پر رحم کرے ایسا نہ کیجئے لڑکا بڑی عمر والی عورت ہی کو دے دیجئے ، یہ اسی کا ہے (یہ دیکھ کر ) حضرت سلیمان علیہ السلام نے چھوٹی عمر والی عورت کے حق میں فیصلہ کیا اور اس کو لڑکا دلوادیا ۔ ( بخاری ومسلم)

تشریح :
اس قضیہ کی بنیاد یہ تھی کہ دونوں عورتیں جو عمر میں ایک دوسرے سے چھوٹی بڑی تھیں ایک ہی جگہ رہتی تھیں ، ان دونوں کے پاس ایک ایک بچہ تھا ، اور بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ دونوں بچے ہم عمر بھی تھے اور ہم شکل بھی، اس لئے جب بھیڑیا ان میں سے ایک بچہ کو اٹھا کر لے گیا تو دونوں عورتوں کے درمیان یہ نزاع پیدا ہوگیا کہ بھیڑیا جس بچہ کو اٹھا کر لے گیا ہے وہ کس کا تھا؟ ہر ایک عورت یہ کہتی تھی کہ وہ بچہ اس کا نہیں تھا بلکہ دوسری عورت کا تھا ۔ یا یہ کہ وہ بچے ہم عمر اور ہم شکل نہیں تھے ، اور دونوں عورتیں خوب جانتی تھیں کہ بھیڑیا کس کے بچہ کو لے گیا ہے لیکن اس بچہ کی ماں یا تو بد حواسی میں یہ ماننے کو تیار نہیں تھی کہ اس کا بچہ جاتا رہے یا وہ دوسرے بچہ کو جو موجود تھا ، اس لئے ہتھیانا چاہتی تھی کہ اس کو اپنے پاس رکھ کر اپنے اصل بچہ کا غم ہلکا کرسکے اور یا اس کے اس دعوے کے پیچھے کوئی اور فاسد غرض کار فرما ہوگی ، بہرحال جب یہ قضیہ حضرت داؤد علیہ السلام کے سامنے پیش ہوا تو انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ جس بچہ کو بھیڑیا اٹھا کر لے گیا ہے وہ اس عورت کا تھا جو چھوٹی عمر کی ہے اور موجود لڑکے کو بڑی عمر والی عورت کے حوالہ کرنے کا حکم دیا حضرت داؤد علیہ السلام نے یہ فیصلہ یا تو اس بنیاد پر کیا کہ وہ بچہ بڑی عمر والی عورت ہی کے پاس تھا اور شرعی قاعدہ یہ ہے کہ اگر کسی چیز کی ملکیت کے بارے میں کوئی واضح اور یقینی ثبوت نہ ہو تو اس چیز کا زیادہ حق دار وہ شخص مانا جائے گا جس کے قبضے میں وہ چیز ہوگی ۔ یا یہ کہ وہ بچہ بڑی عمر والی عورت سے کچھ مناسبت رکھتا تھا لہٰذا حضرت داؤد علیہ السلام نے علمی قیافہ سے کام لے کر مذکورہ فیصلہ صادر کیا بہرحال ان کے اس فیصلہ کی بنیاد ان دونوں میں سے کوئی بات ہو یا ان کے علاوہ کسی اور قرینہ اور دلیل کو انہوں نے مدنظر رکھا ہو یہ بات طے ہے کہ ان کا یہ فیصلہ ان کے اپنے اجتہاد کا نتیجہ تھا اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ وحی نہیں تھا کیونکہ اگر اس سلسلہ میں ان پر کوئی وحی آئی ہوتی اور ان کو یہ فیصلہ اسی وحی کے تحت ہوتا تو حضرت سلیمان علیہ السلام ان کے فیصلے کے خلاف الگ فیصلہ نہ دیتے ۔
جب یہ قضیہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے پیش کیا گیا تو انہوں نے اس کا فیصلہ کرنے کا بالکل نفسیاتی طریقہ اختیار کیا انہوں نے دونوں کے دعوے سن کر کہا کہ ایک چھری لاؤ میں اس بچہ کو بیچ سے کاٹ کر دو ٹکڑے کئے دیتا ہوں اور تم دونوں میں سے ہر ایک کو ایک ایک ٹکڑا دے دوں گا ان کا مقصد یہ تھا کہ دونوں عورتوں کی مامتا کا امتحان ہوجائے اس بات پر ان دونوں طرف سے جس ردعمل کا اظہار ہوگا وہ صحیح نتیجہ تک پہنچنے میں مدد دے گا ظاہر ہے جو عورت اس بچہ کی اصل ماں ہوگی وہ چاہے اس بچہ کو اپنے سے جدا کرنے پر راضی ہوجائے مگر اپنی آنکھوں کے سامنے اس کے دو ٹکڑے کئے جانے کو کسی حال میں برداشت نہیں کرے گی چنانچہ یہی ہوا جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے ان دونوں کو پرکھنے کے لئے یہ بات کہی تو بڑی عمر والی عورت خاموش رہی مگر چھوٹی عمر والی عورت تڑپ گئی اور کہنے لگی کہ ایسا ظلم نہ کیجئے میں اس پر راضی ہوں کہ آپ اس بچہ کو اس بڑی عمر والی عورت کے حوالے کردیں اور یہ بچہ جیتا رہے لیکن مجھے یہ گوارہ نہیں کہ اس بچہ کو چیر کر دو ٹکڑے کردیا جائے اور موت کی آغوش میں پہنچا دیا جائے حضرت سلیمان علیہ السلام کے کہنے کا جو مقصد تھا وہ پورا ہوگیا انہوں نے اس بچہ کے تیئں چھوٹی عمر والی عورت کی ظاہر کردہ شفقت ومحبت کو اس کی ممتا اور بڑی عمر والی عورت کی خاموشی کو اس کی سنگدلی اور بچہ سے بے تعلقی پر محمول کر کے نتیجہ اخذکرلیا کہ یہ بچہ چھوٹی عمر والی ہی عورت کا ہے اور بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ بعد میں بڑی عمر والی عورت نے اقرار بھی کیا ہوگا کہ وہ بچہ اس کا نہیں ہے بلکہ دوسری عورت کا ہے ، لہٰذا حضرت سلیمان علیہ السلام نے بچہ کو اس کی اصل ماں یعنی چھوٹی عمر والی عورت کے حوالہ کردیا ! اب حضرت سلیمان علیہ السلام کے اس فیصلہ کے متعلق یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے حضرت داؤد علیہ السلام کے فیصلہ کو کیسے توڑا ، جب کہ حضرت داؤد علیہ السلام کا فیصلہ ایک نبی کا فیصلہ تھا اور کسی نبی کے فیصلہ کو توڑا نہیں جاسکتا ، چاہے وہ فیصلہ اس نبی کے اپنے اجتہاد ہی کا نتیجہ کیوں نہ ہو؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے اس بڑی عمر والی عورت کے حق میں حتمی اور یقینی فیصلہ صادر نہیں کردیا تھا بلکہ حدیث میں جس فیصلہ کا ذکر کیا گیا ہے وہ احتمالی نوعیت رکھتا ہے اور اس کی حیثیت انتظامی حکم کی تھی اور اس سے ان کا مقصد اس معاملہ کو محض رفع دفع کرنا تھا اور ممکن ہے کہ ان کی شریعت میں پائی جانے والی کسی گنجائش کے تحت کسی ایسے حکم کو منسوخ کیا جانا جائز ہو جس کا تعلق وحی الہٰی یا نص شرعی کے بجائے اجتہاد سے ہو۔

یہ حدیث شیئر کریں