مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ جنت اور دوزخ کی تخلیق کا بیان۔ ۔ حدیث 286

حضرت عیسی علیہ السلام اور آنحضرت کا باہمی قرب وتعلق :

راوی:

وعنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أنا أولى الناس بعيسى بن مريم في الأولى والآخرة الأنبياء إخوة من علات وأمهاتهم شتى ودينهم واحد وليس بيننا نبي " . متفق عليه

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دنیا اور آخرت میں (یا آغاز وانجام میں ) حضرت عیسی علیہ السلام سے سب سے زیادہ قریب اور متعلق میں ہوں اور تمام انبیاء علیہم السلام آپس میں سوتیلے بھائی ہیں جن کا باپ ایک ہے اور مائیں الگ الگ ہیں ، ان سب کا اصل دین ایک ہے، اور ہمارے (یعنی میرے اور عیسی علیہ السلام کے ) درمیان کوئی نبی نہیں ہے (بخاری ومسلم )

تشریح :
حضرت عیسی علیہ السلام سے سب سے زیادہ قریب ومتعلق میں ہوں اس اعتبار سے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عیسی علیہ السلام کے درمیان کوئی پیغمبر نہیں ہے حضرت عیسی علیہ السلام ہی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دنیا میں مبعوث ہونے کی واضح بشارت دی آنحضرت کے دین وشریعت کی تمہید بھی انہوں نے ہی قائم کی ، اور آخر زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب اور خلیفہ بھی وہی ہوں گے ۔ انبیاء کو ایک دوسرے کا سوتیلا بھائی قرار دینے کا مقصد ان کے درمیان باہمی تعلق اور مناسبت کی ایک خاص نوعیت کو ظاہر کرتا ہے اور ان کے باپ " سے مراد وہ چیز ہے جو اس دنیا میں ان کی بعثت کا سبب بنی ہے یعنی مخلوق اللہ کی ہدایت اور ان کو صحیح راستے پر لگانے کی ذمہ داری اور ان کی ماؤں سے مراد ان کی اپنی اپنی شریعتیں ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف اور الگ الگ ہیں ۔ ان کا سب کا اصل دین ایک ہے " کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ لوگوں کی ہدایت اور ان کے مفاد کی مصلحت وحکمت اور قوم وملت کے حالات کی رعایت کے پیش نظر ہر نبی کو الگ الگ شریعت دے کر اس دنیا میں بھیجا گیا لیکن سب کا اصل دین ایک ہی ہے ، یعنی تو حید ۔

یہ حدیث شیئر کریں