مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ جنت اور دوزخ کی تخلیق کا بیان۔ ۔ حدیث 300

انبیاء علیہ السلام کی تعداد :

راوی:

وعن أبي ذر قال : قلت : يا رسول الله أي الأنبياء كان أول ؟ قال : " آدم " . قلت : يا رسول الله ونبي كان ؟ قال : " نعم نبي مكلم " . قلت : يا رسول الله كم المرسلون ؟ قال : " ثلاثمائة وبضع عشر جما غفيرا "
وفي رواية عن أبي أمامة قال أبو ذر : قلت يا رسول الله كم وفاء عدة الأنبياء ؟ قال : " مائة ألف وأربعة وعشرون ألفا الرسل من ذلك ثلاثمائة وخمسة عشر جما غفيرا "

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) سب سے پہلے نبی کون ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حضرت آدم علیہ السلام میں نے پھر پوچھا کیا حضرت آدم علیہ السلام نبی تھے ؟ فرمایا ہاں وہ نبی تھے ، انہوں رب العالمین سے شرف تکلم وتخاطب حاصل ہوا ہے ، اس کے بعد میں نے پوچھا یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء میں رسول کتنے ہوئے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کافی بڑی تعداد میں تین سو دس سے کچھ زیادہ ہی ہوں گے اور ایک روایت میں حضرت ابوامامہ تابعی سے منقول ہے یہ الفاظ ہیں حضرت ابوزر نے کہا میں نے عرض کیا ، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء کی کل تعداد خواہ وہ رسول ہوں یا غیر رسول تعداد کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک لاکھ چوبیس ہزار ان میں رسول تین سو پندرہ ہوئے ہیں جو کافی بڑی تعداد ہے ،

تشریح :
انہیں اللہ رب العالمین سے شرف وتکلم وتخاطب حاصل ہوا ہے ، کا مطلب یہ ہے حضرت آدم علیہ السلام جس طرح دنیائے انسانی کے باپ اور اپنی نسل کی دنیوی سعادت وفلاح کے لئے رہنما وہادی تھے ، اسی طرح اخروی سعادت وفلاح کے پیغامبر بھی تھے ان کا نبی ہونا شک وشبہ سے بالا ترہے اور چونکہ وہ پہلے انسان ہیں اس لئے نسل انسانی کے لئے اللہ کی وحی کا ذریعہ جو پیغامات بھی انہوں نے سنائے وہی ان کے صحیفے اور وہی ان کی شریعت سمجھی جائے گی اس اعتبار سے وہ صرف نبی ہی تھے بلکہ رسول بھی تھے ان پر صحیفے بھی اترے اور ان کو شریعت بھی عطاء کی گی ،۔
رسول اور نبی میں فرق یہ ہے کہ رسول تو اس پیغمبر کو کہتے ہیں جس کو نئی شریعت وکتاب دی گئی ہو اور مخلوق اللہ تک اس شریعت وکتاب کو پہنچانے کا ذمہ دار بنایا گیا ہو اور نبی ہر پیغمبر کو کہتے ہیں چاہے اس کو نئی شریعت اور کتاب دی گئی ہویا نہ دی گئی ہو ، بلکہ وہ پہلی شریعت اور کتاب کا تابع ہو اور خواہ وہ تبلیغ کا ذمہ دار بنایا گیا ہویا نہ بنایا گیا ہو،۔"
کل انبیاء کی تعداد کے بارے میں اس حدیث میں ایک لاکھ چوبیس ہزار کا ذکر ہے اور بعض روایتوں میں دو لاکھ چوبیس ہزار بیان کی گی ہے ظاہر ہے دونوں عدد میں زبردست تضاد ہے اس لئے علماء نے لکھا ہے کہ اس بارے میں زیادہ تحقیق وجستجو نہ کرنی چاہی اور نہ کوئی خاص عددمتعین کرنا چاہے بلکہ یہ عقیدہ رکھنا چاہے کہ انبیاء کی ٹھیک تعداد اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے اور اجمالی طور پر اس طرح ایمان لانا چاہے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنے رسول اور نبی بھیجے ہم ان سب کو برحق رسول اور نبی مانتے ہیں ۔ اس عقیدہ اور اجمالی ایمان سے نہ کوئی نبی انبیاء کے زمرہ سے باہر رہے گا اور نہ کوئی غیر نبی ان کے زمروں میں شامل ہوگا ۔

یہ حدیث شیئر کریں