مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسماء مبارک اور صفات کا بیان ۔ حدیث 361

چہرئہ اقدس ، بال مبارک اور مہر نبوت کا ذکر ،

راوی:

وعن جابر بن سمرة قال : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم قد شمط مقدم رأسه ولحيته وكان إذا ادهن لم يتبين وإذا شعث رأسه تبين وكان كثير شعر اللحية فقال رجل : وجهه مثل السيف ؟ قال : لا بل كان مثل الشمس والقمر وكان مستديرا ورأيت الخاتم عند كتفه مثل بيضة الحمامة يشبه جسده " . رواه مسلم

اور حضرت جابر ابن سمرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سر اور داڑھی کے اگلے حصہ میں کچھ بال سفید ہوگئے تھے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بالوں میں تیل لگا لیتے تو یہ سفیدی ظاہر نہیں ہوتی تھی ، البتہ جب سر مبارک کے بال بکھرے ہوئے ہوتے تو یہ سفیدی جھلکنے لگتی تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی میں بہت زیادہ بال تھے جب حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حلیہ بیان کیا تو ) ایک شخص نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک (چمک اور دمک میں ) تلوار کی طرح تھا ۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ نہیں بلکہ آفتاب وماہتاب کی طرح تھا اور گولائی لئے ہوئے تھا ۔ نیز میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر نبوت کو دیکھا جو شانہ کے قریب تھی ، اور کبوتر کے انڈے کی طرح (گول) تھی اس کی رنگت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک کے رنگ کی سی تھی ۔ (مسلم)

تشریح :
تیل لگانے سے بال اکٹھا ہو کر جمے رہتے ہیں ، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ بال سفید بال جو تعداد میں بہت کم تھے ، تیل لگے بالوں میں نظر نہیں آتے تھے ، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال خشک رہتے تھے ، ان میں تیل نہیں ہوتا تھا تو وہ سفید نہیں ہوتا تھا تو وہ سفید بال جھلکنے لگتے تھے کیونکہ بغیر تیل کے بال بکھرے رہتے ہیں اور اگر کوئی ایک بھی سفید بال ہوتا تو وہ نظر آنے لگتا ہے روایتوں میں آتا ہے کہ آخر عمر میں جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑھاپا طاری ہوگیا تھا اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر اور داڑھی میں سفید بالوں کی تعداد بیس سے زیادہ نہیں تھی بلکہ ایک روایت میں اس سے بھی کم کا ذکر ہے ۔ داڑھی میں بہت زیادہ بال کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی گھنی تھی ہلکی نہیں تھی جیسا کہ ایک روایت میں کث اللحیۃ کے الفاظ بھی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھنی داڑھی والے تھی ۔ اس بارے میں کوئی واضح بات ثابت نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ریش مبارک کی درازی کیا تھی تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام اور دوسرے بزرگوں کی داڑھی کے بارے میں واضح روایتیں منقول ہیں ۔چنانچہ منقول ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی داڑھی اتنی لمبی چوڑی تھی کہ پورا سینہ کندھوں تک چھپا رہتا تھا اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ ایک مشت سے زیادہ داڑھی رکھتے تھے حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے حالات میں لکھا ہے کہ ان کی داڑھی بھی بہت لمبی چوڑی تھی بہر حال داڑھی کو ایک مشت سے کم رکھنا روا نہیں ہے ۔ البتہ ایک مشت سے زائد لمبی داڑھی کے بارے میں مختلف روایات وآثار منقول ہیں ، بلکہ آفتاب وماہتاب کی طرح تھا اس شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ کو جو تلوار سے مشابہت دی تو اس سے ایک گمان یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ لمبوترا ہوگا جس کو بیضوی یا کتابی چہرہ کہا جاسکتا ہے لہذا حضرت جابر نے واضح فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ لمبوترا نہیں تھا بلکہ گولائی لئے ہوئے تھا واضح رہے کہ یہاں حدیث میں" مستدیر" کا جو لفظ ہے یا تو آفتاب وماہتاب اور آئینہ کا جو ذکر آیاہے تو اس سے یہ وہم بھی نہ ہونا چاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک چاندوسورج کی مانند بالکل گول دائرہ کی طرح تھا ایک حدیث میں وضاحت ہے لم یکن بالمکثم " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک نہ بالکل گول تھا نہ بالکل لمبا بلکہ گولائی لئے ہوئے تھا ۔ اسی لئے مستدیر کا ترجمہ گولائی لئے ہوئے کیا گیا ہے ۔ ایک روایت میں بل مثل القمر کے الفاظ ہیں یعنی بلکہ چاند کی طرح تھا۔ ایک روایت میں یہ منقول ہے کہ وکان وجہہ قطعۃ قمر یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک آئینہ کی طرح ہوتا تھا کہ دیوار کا عکس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک جھلکنے لگتا مواہب لدنیہ میں لکھا ہے کہ جہاں تک ان تشبیہوں کا تعلق ہے تو لوگوں نے اپنی سمجھ کے مطابق اور مروجہ اسلوب وتعبیر بیان کا سہارا لیتے ہوئے آنحضرت کے سراپا اور حسن وجمال کو مختلف چیزوں سے تشبیہ دی ہے ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جمال باکمال کی شوکت وجلالت اور آپ کے حسن وملاحت کی تابندگی اور دلربائی سے کوئی بھی چیز مشابہت نہیں رکھ سکتی ۔
کسے بحسن ملاحت بیار مانہ رسد ترادریں سخن انکار کار مانہ رسد
ہزار نقش برآیدز کلک صنع ولے یکے بخوبی نقش ونگار مانہ رسد
میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر نبوت کو دیکھا جو شانہ کے قریب تھی ۔ ایک روایت میں منقول ہے کہ مہر نبوت دونوں شانوں کے درمیان تھی ، ان دونوں روایتوں کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے دراصل وہ مہر نبوت بائیں شانہ کے قریب تھی ، لہٰذا کسی نے تو یہ بیان کیا کہ شانہ کے قریب تھی اور کسی نے یہ کہا ہے کہ دونوں شانوں کے درمیان تھی !
اس کی رنگت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک کے رنگ کی سی تھی" کا مطلب یہ ہے کہ مہر نبوت جسم پر کسی بدنما داغ یا دھبے کی صورت میں نہیں تھی کہ وہ بدن مبارک سے الگ کوئی چیز معلوم ہوتی ہو بلکہ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک اور تمام اعضاء کا رنگ وروپ تھا اسی طرح مہر نبوت بھی تھی ، اس کی آب وتاب اور رنگ وروپ میں جسم مبارک سے سرموفرق نہیں تھا ۔
مہر نبوت کی حقیقت : مہر نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن مبارک پر ولادت ہی کے وقت سے تھی اور اس کی صورت یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں شانوں کے درمیان کبوتر کے انڈے کے برابر ایک جگہ بیضوی شکل میں جسم مبارک سے کچھ ابھری ہوئی تھی یہی مخصوص ابھار " خاتم نبوت " (یعنی نبوت کی مہر اور علامت ) کہلاتا تھا ، اس مہر نبوت کی مقدار اور رنگت کے بارے میں روایتیں کچھ مختلف ہیں لیکن ان روایتوں کے درمیان تطبیق یہ ہے کہ اس کا حجم گھٹتا بڑھتا رہتا تھا ، اور اس کی رنگت بھی مختلف ہوتی رہتی تھی ، اس طرح اس بارے میں بھی مختلف روایتیں ہیں کہ اس مہر نبوت پر کچھ لکھا ہوا تھا یا نہیں ؟ بعض روایتوں میں ہے کہ اس پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لکھا ہوا تھا اور بعض روایتوں میں یہ ہے کہ مہر نبوت پر یہ عبارت تھی : وحدہ لاشریک لہ توجہ حیث کنت فانک منصور روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ مہر نبوت میں اتنی نورانیت اور اس قدر چمک تھی کہ اس پر آنکھیں نہیں ٹھہرتی تھیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس مہر نبوت کا ذکر پچھلی آسمانی کتابوں تورات اور انجیل وغیرہ میں موجود تھا ، اور انبیاء علیہم السلام آخر زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کی جو بشارت دیتے تھے تو یہ علامت خاص طور پر بتاتے تھے کہ ان کی پشت پر مہر نبوت ہوگی ، حاکم مستدرک میں وہب ابن منبہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ ایسا کوئی نبی اور رسول نہیں گذرا جس کے داہنے ہاتھ پر نبوت کا نشان (یعنی مہر نبوت ) نہ ہو مگر ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کانشان آپ کی پشت مبارک پر دونون شانوں کے درمیان تھا اور اس نشان کی حیثیت مہر کی سی تھی جو کسی فرمان ودستاویزکو تغیروتبدل سے محفوظ رکھنے کے لئے اس پر ثبت کی جاتی ہے ۔ واضح رہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس مہر نبوت کو ظاہری چیزوں جیسے کبوتر کے انڈے وغیرہ سے تشبیہ دینا لوگوں کو سمجھانے کے لئے ہے ورنہ اس کی اصل حقیقت ایک ایسا سرعظیم اور قدرت کی نادر نشانی ہے جس کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ۔

یہ حدیث شیئر کریں