مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسماء مبارک اور صفات کا بیان ۔ حدیث 381

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات و خصوصیات کا توریت میں ذکر

راوی:

وعن أنس أن غلاما يهوديا كان يخدم النبي صلى الله عليه و سلم فمرض فأتاه النبي صلى الله عليه و سلم يعوده فوجد أباه عند رأسه يقرأ التوراة فقال له رسول الله صلى الله عليه و سلم : " يا يهودي أنشدك بالله الذي أنزل التوراة على موسى هل تجد في التوراة نعتي وصفتي ومخرجي ؟ " . قال : لا . قال الفتى : بلى والله يا رسول الله إنا نجد لك في التوراة نعتك وصفتك ومخرجك وإني أشهد أن لا إله إلا الله وأنك رسول الله . فقال النبي صلى الله عليه و سلم لأصحابه : " أقيموا هذا من عند رأسه ولوا أخاكم " . رواه البيهقي في " دلائل النبوة "

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا ، بیمار ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی عیادت کو اس کے گھر تشریف لائے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ اس کا باپ اس کے سرھانے بیٹھا ہوا ہے تورات کا کوئی حصہ پڑھا رہا ہے (جیسے مسلمانوں میں نزع کے وقت سورت یٰسین پڑھی جاتی ہے ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ دیکھ کر ) اس سے پوچھا کہ یہودی !میں تمہیں اس اللہ کی قسم دے کر دریافت کرتا ہوں جس نے موسی علیہ السلام پر تورات نازل کی (سچ سچ بتانا ) کیا تم اس تورات میں میری تعریف وتوصیف اور میرے (وطن سے ) نکلنے کا ذکر پاتے ہو؟ اس یہودی نے جواب دیا کہ نہیں لیکن وہ لڑکا بولا ہاں یا رسول اللہ !خدا کی قسم اس تورات میں ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف وتوصیف اور آپ کے نکلنے کا ذکر پاتے ہیں ، اور میں یقینی طور پر اس امر کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی نہیں معبود نہیں اور اس امر کی بھی گواہی دیتا ہوں کہ بلاشبہ آپ اللہ کے رسول ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکے کی اس راست گوئی اور اس کے اظہار ایمان واسلام کو دیکھ کر) اپنے صحابہ کرام سے فرمایا کہ : اس کے باپ کو اس کے سرہانے سے اٹھادو اور تم اپنے اس (دینی ) بھائی کے والی بنو (یعنی اگر اسی لڑکے کا انتقال ہوجائے تو پھر اس کے تجہیزوتکفین وغیرہ کے امور تم انجام دو) اس روایت کو بیہقی نے دلائل النبوۃ میں ذکر کیا ہے ،

تشریح :
میرے نکلنے " کا ایک مطلب تو وطن یعنی مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ آجانا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ لفظ مخرج یہاں بعث (منصب رسالت ونبوت پر فائز ہونے ) کے معنی میں ہو۔
لفظ ، نعت ، اور صفت ، لغوی طور پر دونوں ہم معنی ہیں ۔فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں نعت سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذاتی وباطنی اوصاف ہیں اور ، صفت ، سے ظاہری اوصاف مراد ہیں ۔

یہ حدیث شیئر کریں