مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ قیامت کی علامتوں کا بیان ۔ حدیث 4

قیامت کی ایک خاص علامت

راوی:

وعن أبي هريرة قال بينما كان النبي صلى الله عليه وسلم يحدث إذ جاء أعرابي فقال متى الساعة ؟ قال إذا ضيعت الأمانة فانتظر الساعة . قال كيف إضاعتها ؟ قال إذا وسد الأمر إلى غير أهله فانتظر الساعة . رواه البخاري .

" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ( ایک دن ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام سے سے (کسی سلسلہ میں ) باتیں کر رہے تھے کہ اچانک ایک دیہاتی (مجلس نبوی میں ) آیا اور کہنے لگا کہ قیامت کب آئے گی ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب امانت، تلف کی جانے لگے تو قیامت کا انتظار کرنے لگنا ۔" دیہاتی نے پوچھا کہ امانت ، کیونکر تلف کی جائے گی اور یہ نوبت کب آئے گی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ " جب حکومت وسلطنت کا کام نااہل لوگوں کے سپرد ہو جائے تو ( سمجھنا کہ یہ امانت کا تلف ہو جانا ہے اور اس وقت ) قیامت کا انتظار کرنا ۔ " (بخاری)

تشریح
امانت سے مراد شریعت کی طرف سے عائد کی جانے والی ذمہ داریاں اور دین کے احکام ہیں جیسا کہ قرآن کریم کے ارشاد انا عرضنا الامانۃ میں امانت کا یہی مفہوم ہے یا " امانت " سے لوگوں کے حقوق اور ان کی امانتیں مراد ہیں ۔ حاصل یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دیہاتی کے پوچھنے پر یہ واضح فرمایا کہ قیامت کا متعین وقت عالم الغیوب کے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا اور نہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو وہ ذریعہ بتایا ہے جس سے قیامت کا متعینہ وقت جانا جا سکے، ہاں اس نے ایسی علامتیں ضرور مقرر کی ہیں جو قیامت سے پہلے ظاہر ہوں گی اور جو اس امر کی نشانیاں ہوں گی کہ اب قیامت قریب ہے چنانچہ ان علامتوں میں سے ایک علامت امانتوں کا ضائع کرنا ہے کہ لوگ امانتوں میں خیانت کرنے لگیں گے ۔
" نا اہل " سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنے اندر حکومت وسیادت کی شرائط نہ رکھنے کی وجہ سے حکمراں بننے کا استحقاق نہ رکھتے ہوں گے ، جیسے عورتیں ، بچے جہلاء، فاسق وبد کار ، بخیل اور نا مرد وغیرہ ، اسی طرح جو شخص قریش النسل نہ ہو وہ بھی اس باب میں " نا اہل " ہی کے زمرہ میں شمار ہوگا خواہ وہ سلاطین کی نسل سے کیوں نہ ہو لیکن اس شرط کا تعلق خاص طور پر خلافت سے ہے !حدیث کے اس جزء کا حاصل یہ ہے کہ اگر دین ودنیا کے امور کا نظم وانتظام ایسے شخص کے ہاتھوں میں آجائے جو اس ذمہ داری کو پورا کرنے کی اہلیت نہ رکھتا ہو تو یقینا ان امور کا صحیح طور پر انجام پانا نا ممکن نہیں ہوگا اور طرح طرح کی خرابیاں پیدا ہو جائیں گی جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ لوگوں کے حقوق ضائع وپامال ہونے لگیں گے اور ہر شخص بے چین ومضطرب رہے گا ۔
" وسد " بصیغہ مجہول اور سین کی تشدید کے ساتھ یا تشدید کے بغیر ۔ اصل میں " وسادۃ " سے مشتق ہے ، جس کے لغوی معنی تکیہ کے ہیں ، چنانچہ جس شخص کے سپرد کوئی کام کیا جاتا ہے تو گویا اس کام کے اعتبار سے اس شخص پر تکیہ کیا جاتا ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں