مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ آنحضرت کے اخلاق وعادات کا بیان ۔ حدیث 416

قریش مکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کیوں کرتے تھے :

راوی:

وعن علي أن أبا جهل قال للنبي صلى الله عليه و سلم : إنا لا نكذبك ولكن نكذب بما جئت به فأنزل الله تعالى فيهم : [ فإنهم لا يكذبونك ولكن الظالمين بآيات الله يجحدون ] رواه الترمذي

اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ جب ابوجہل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہا کہ (اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم (یعنی قریش مکہ ) تمہیں نہیں جھٹلاتے (کیونکہ تمہاری صدق گوئی ہم پر خوب عیاں ہے اور ہم نے تمہیں کبھی جھوٹ بولتے نہیں دیکھا اسی لئے تم اپنوں اور غیروں سب میں صدق وامانت کے ساتھ مشہور ہو) ہم تو اس چیز کو جھٹلاتے ہیں جو تم لے کر آئے ہو ۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان (قریش مکہ یعنی ابوجہل وغیرہ ) کے حق میں یہ آیت نازل فرمائی ( فَاِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُوْنَكَ وَلٰكِنَّ الظّٰلِمِيْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ يَجْحَدُوْنَ) 6۔ الانعام : 33) " آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو نہیں جھٹلاتے بلکہ وہ ظالم تو اللہ کی آیتوں کو جھٹلاتے ہیں ۔ (ترمذی )

تشریح :
جو تم لے کر آئے ہو ۔سے مراد وحی الٰہی یعنی کتاب اور شریعت ہے ابوجہل کا مطلب یہ تھا کہ تمہارے ساتھ ہمارا اختلاف اس دین وشریعت کے بارے میں ہے جس کی طرف تم ہمیں بلاتے ہو ہم تمہاری تکذیب صرف اس لئے کرتے ہیں کہ تمہاری لائی ہوئی کتاب وشریعت کو سچ نہیں مانتے ، اگر درمیان میں سے تمہاری یہ کتاب وشریعت ہٹ جائے تو پھر تمہارے ساتھ ہمارا کوئی جھگڑا نہیں رہے گا ۔ لیکن وہ لعین اتنا نہیں سمجھا کہ جب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) دنیاوی معاملات میں لوگوں سے جھوٹ نہیں بولتے اور صدق وسچائی ان کا وصف ہے جس کا اقرار واعتراف خود قریش مکہ کو بھی تھا تو پھر وہ دین وآخرت کے معاملہ میں لوگوں سے کیوں جھوٹ بولیں گے ، اور ان کو جھوٹ کی طرف بلائیں گے ، اور اللہ پر بہتان باندھیں گے ۔ اصل بات یہ تھی کہ قریش مکہ کے سارے بڑے بڑے سردار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تئیں سخت بغض وعناد اور حسد کا شکار تھے ان کو ساری جلن اس بات کی تھی کہ اس یتیم وامی شخص کو اتنا بڑا مرتبہ کیسے مل گیا اور ہم اتنی ساری دنیاوی وجاہتیں رکھتے ہوئے اس کی پیروی کیسے کریں، کس طرح اس کو اپنا بڑا اور قابل اتباع مان لین اور یہی جلن ان سے طرح طرح کی باتیں کہلواتی تھی ، جن میں نہ کوئی معقولیت ہوتی تھی اور نہ کوئی سچائی ۔ تفسیر کشاف میں مذکورہ بالا آیت کی تفسیر میں دو مطلب لکھے ہیں ایک تو یہ کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) یہ کافر جو تمہیں جھٹلاتے ہیں ، اور یہ ماننے سے انکار کرتے ہیں کہ تم واقعۃ اپنے پروردگار کی طرف سے نئی کتاب وشریعت لے کر مبعوث ہوئے تو یہ تمہیں نہیں جھٹلاتے ، درحقیقت اللہ کی نازل کردہ آیتوں اور اس کے تارے ہوئے دین کو جھٹلاتے ہیں گویا اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی مالک اپنے اس غلام سے کہ جس کو لوگ ناروا اطوار پر پریشان کرتے اور ستاتے ہوں یہ کہے کہ وہ لوگ تجھے نہیں ستاتے ہیں بلکہ مجھے ستاتے ہیں ، تو دیکھنا میں ان کے ساتھ کیا معاملہ کرتا ہوں اور ان کو کیسا مزہ چکھاتا ہوں دوسرا مطلب یہ ہے کہ : اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) یہ کافر تمہیں نہیں جھٹلاتے ہیں کیونکہ تم تو ان کے نزدیک بڑے سچے اور امین ہو ، اور تمہاری سچائی اور امانت ان میں ضرت المثال کی حیثیت رکھتی ہے ہاں یہ لوگ اللہ کی آیتوں اور اس کے فرمائے ہوئے دین کو جھٹلاتے ہیں یہ مطلب حدیث کے مضمون سے زیادہ مطابقت اور موزونیت رکھتا ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں