مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ معجزوں کا بیان ۔ حدیث 476

غزوئہ حنین کا معجزہ

راوی:

وعن عباس قال : شهدت مع رسول الله صلى الله عليه و سلم يوم حنين فلما التقى المسلمون والكفار ولى المسلمون مدبرين فطفق رسول الله صلى الله عليه و سلم يركض بغلته قبل الكفار وأنا آخذ بلجام بغلة رسول الله صلى الله عليه و سلم أكفها إرادة أن لا تسرع وأبو سفيان آخذ بركاب رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم أي عباس ناد أصحاب السمرة فقال عباس وكان رجلا صيتا فقلت بأعلى صوتي أين أصحاب السمرة فقال والله لكأن عطفتهم حين سمعوا صوتي عطفة البقر على أولادها فقالوا يا لبيك يا لبيك قال فاقتتلوا والكفار والدعوة في الأنصار يقولون يا معشر الأنصار يا معشر الأنصار قال ثم قصرت الدعوة على بني الحارث بن الخزرج فنظر رسول الله صلى الله عليه و سلم وهو على بغلته كالمتطاول عليها إلى قتالهم فقال حين حمي الوطيس ثم أخذ حصيات فرمى بهن وجوه الكفار ثم قال انهزموا ورب محمد فوالله ما هو إلا أن رماهم بحصياته فما زلت أرى حدهم كليلا وأمرهم مدبرا . رواه مسلم

" اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ حنین میں شریک تھا ( ایک موقع پر ) جب کہ مسلمانوں اور کافروں کے درمیان شدید خون ریزی ہوئی تو پشت دے کر مسلمان بھاگ کھڑے ہوئے ( یہ نازک صورت حال دیکھ کر ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خچر کو ایڑی لگانا اور ( بلا خوف ) کفار کی طرف بڑھنا شروع کیا ، اس وقت میں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خچر کی لگام پکڑے ہوئے تھا ، اور اس خیال سے اس کو روک رہا تھا کہ کہیں وہ تیزی کے ساتھ کافروں میں نہ جا گھسے ، اور ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی ) ابوسفیان بن حارث ( جن کا اصلی نام مغیرہ بن حارث بن عبد المطلب تھا، اظہار عقیدت ومحبت اور محافظت کے طور پر ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رکاب تھامے ہوئے تھے ، اسی دوران رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ عباس ! اصحاب سمرہ کو آواز دو ! حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو ایک بلند آواز آدمی تھے کہتے ہیں کہ میں نے ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر پکار کر کہا : کہاں ہیں اصحاب سمرہ !! ؟ ( کیا تم اپنی وہ بیعت بھول رہے ہو جو تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد وحفاظت کے لئے درخت کے نیچے کی تھی ! ؟ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم ( میری یہ پکار سن کر ) اصحاب سمرہ اس طرح لوٹے اور دوڑتے ہوئے آئے ) جیسے گائیں ( فرد محبت واشتیاق سے ) اپنے بچوں کی طرف ( دوڑتی ہوئی ) لوٹ کر آتی ہے ) اور وہ ( اصحاب سمرہ ) کہہ رہے تھے : اے قوم ہم حاضر ہیں ، اے قوم ہم حاضر ہیں ۔
اس کے بعد مسلمان از سر نو ہمت اور جوش کے ساتھ ( کافروں سے بھڑ گئے ۔ اور انصار صحابہ ) نے آپس میں ایک دوسرے کو بلانے ، اور حوصلہ دلانے کے لئے غازیوں کی مانند ) اس طرح پکارنا شروع کیا : کہ اے گروہ انصار ! اے گروہ انصار ! ہمت سے کام لو اور دشمن پر ٹوٹ پڑو ) پھر یہ پکارنا قبیلہ بنو حارث بن خزرج تک محدود ہوگیا ( یعنی صرف اولاد حارث ہی کو ، جو انصار کا سب سے بڑا قبیلہ ہے، اے اولاد حارث اے اولاد حارث : کہہ کر پکارا جانے لگا ) اس دوران رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ، جو اپنے خچر پر ایک طاقتور اور قابو یافتہ سوار کی طرح جمے ہوئے تھے ، لڑتے ہوئے مسلمانوں پر نظر ڈالی ( اور بعض حضرات نے کالمتطاول کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ جو " خچر پر گردن اونچی کر کے دیکھنے والے کی طرح بیٹھے ہوئے تھے ، یعنی جس طرح کوئی اپنے سے دور کسی چیز کو دیکھنے کے لئے گردن اونچی کر کے نگاہ ڈالتا ہے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ کنکریاں ہاتھ میں اٹھائیں اور شاہت الوجوہ کہتے ہوئے ان کنکریوں کو کافروں کے منہ پر پھینک مارا اور ( یا تو از راہ تفاول یا پیش خبری کے طور پر ) فرمایا " رب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کافروں کو شکست ہوگئی ۔ " ( حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ) اللہ کی قسم ! یہ شکست جو کافروں کو ہوئی صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کنکریاں پھینکنے کے سبب ہوئی ( کنکریاں پھینکنے کے بعد آخر تک ) برابر دیکھتا رہا کہ کافروں کی تیزی اور شدت سے چلنے والی تلواریں ہلکی اور کند پڑ رہی تھیں اور ان کا انجام ذلت وخواری سے بھرا ہوا تھا ۔ ' '

تشریح :
" حنین " مکہ اور طائف کے درمیان عرفات سے آگے ایک مقام کا نام ہے جہاں فتح مکہ کے بعد شوال سن ٨ ھ میں مسلمانوں اور اس علاقہ میں آباد مشہور قبائل ہو ازن وثقیف کے درمیان زبر دست جنگ ہوئی تھی ، ابتداء جنگ میں مسلمانوں کو دشمن فوج کی طرف سے صبح کا ذب کی تاریکی میں اتنے سخت وشدید اور اچانک حملہ کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ ( مسلمان ) سراسیمہ ہو کر رہ گئے اور سب سے پہلے اہل مکہ میں سے وہ لوگ جو بالکل نئے نئے مسلمان ہوئے تھے ، حو اس باختہ ہو کر بھاگے تو ان کو دیکھ کر انصار ومہاجر صحابہ بھی سخت پریشانی میں ادھر ادھر منتشر ہونے لگے وہ دراصل مدد اور تحفظ چاہنے کے لئے لوٹ لوٹ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آرہے تھے لیکن اس افرا تفری میں محسوس یہ ہو رہا تھا کہ مسلمان پشت دے کر بھاگ رہے ہیں ، جب کہ درحقیقت نہ انہوں نے پشت دکھائی تھی اور نہ وہ بھاگ کھڑے ہوئے تھے، بہر حال مسلمانوں میں اس طرح کی ہلچل اور افراتفری ضرور پیدا ہوگئی تھی جس سے جنگ کا نقشہ مسلمانوں کے خلاف بھی ہوسکتا تھا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی انتہائی شجاعت واستقلال ، نہایت کامیاب حکمت عملی اور اللہ تعالیٰ کی مدد ونصرت نے تھوڑی ہی دیر بعد مسلمانوں کو سنبھال لیا اور دشمنوں کو شکست فاش کا منہ دیکھنا پڑا ۔ "
اس جنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جس خچر پر سوار تھے اس کا نام دلدل تھا اور فروہ ابن نفاثہ نے ، جو ایک مشرک تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تحفۃ بھیجا تھا، اس سے معلوم ہوا کہ مشرکوں کا ہدیہ قبول کیا جاسکتا ہے ، لیکن جیسا کہ احادیث میں منقول ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض مشرکوں کے ہدیئے رد کر دئیے تھے ، لہٰذا بعض حضرات نے کہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ( دلدل ) ہدیہ کا قبول کرلینا اس عمل کا ناسخ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض مشرکوں کا ہدیہ قبول نہیں کیا تھا، لیکن یہ قول محل نظر ہے ، کیونکہ تاریخ کے تعین کے ساتھ یہ بات ثابت نہیں ہے کہ قبول کرنے کا واقعہ پہلے کا ہے یا رد کرنے کا واقعہ پہلے پیش آیا تھا ؟ نیز اکثر حضرات کا قول یہ ہے کہ رد منسوخ نہیں ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو قبول کیا تو اس مشرک کا ہدیہ قبول کیا جس کے مسلمان ہو جانے کی توقع اور جس کے ذریعہ مسلمانوں کو فائدہ پہنچنے کی امید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تھی ، اور جن مشرکوں کا معاملہ اس کے برعکس تھا ان کا ہدیہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رد کر دیا ۔ "
" سمرہ " کیکر کے درخت کو کہتے ہیں ، حدیبیہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے جس درخت کے نیچے جان نثاری کی بیعت لی تھی وہ کیکر کا درخت تھا اس بیعت کو " بیعت الرضوان " اور جن صحابہ سے بیعت لی گئی ان کو " اصحاب سمرہ " کہا جاتا ہے ۔
" اصحاب سمرہ کو آواز دے دو " سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ تھی کہ جو لوگ حدیبیہ کے موقع پر موجود تھے اور جنہوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کی تھی ان کو آواز دے کر کہو یہی وقت تمہاری آزمائش کا ہے اللہ کی راہ میں اور میری حمایت وحفاظت کی خاطر اپنی جانیں قربان کردینے کا تم نے جو عہد کیا تھا اب اس کو پورا کرنے کے لئے پہنچو۔
اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دو معجزوں کا ذکر ہے ، ایک تو یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے سے خبر دے دی کہ کفار کو شکت ہوگئی اور دوسرا معجزہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکریاں اٹھا کر دشمن کے منہ پر پھینکیں تو وہ میدان جنگ سے بھاگ کھڑے ہوئے ۔"

یہ حدیث شیئر کریں