مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ قیامت سے پہلے ظاہر ہونے والی نشانیاں اور دجال کا ذکر ۔ حدیث 50

دجال کا حلیہ

راوی:

وعن عبد الله بن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال رأيتني الليلة عند الكعبة فرأيت رجلا آدم كأحسن ما أنت راء من أدم الرجال له لمة كأحسن ما أنت راء من اللمم قد رجلها فهي تقطر ماء متكأ على عواتق رجلين يطوف بالبيت فسألت من هذا ؟ فقالوا هذا المسيح بن مريم قال ثم إذا أنا برجل جعد قطط أعور العين اليمنى كأن عينة عنبة طافية كأشبه من رأيت من الناس بابن قطن واضعا يديه على منكبي رجلين يطوف بالبيت فسألت من هذا ؟ فقالوا هذا المسيح الدجال . متفق عليه . وفي رواية قال في الدجال رجل أحمر جسيم جعد الرأس أعور عين اليمنى أقرب الناس به شبها ابن قطن .
وذكر حديث أبي هريرة لا تقوم الساعة حتى تطلع الشمس من مغربها في باب الملاحم .
وسنذكر حديث ابن عمر قام رسول الله صلى الله عليه وسلم في الناس في باب قصة ابن الصياد إن شاء الله تعالى .

" اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ( ایک دن ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " میں نے آج کی رات اپنے آپ کو (خواب میں یا کشف کی حالت میں ) کعبہ کے پاس دیکھا، وہاں مجھ کو ایک ایسا گندم گوں شخص نظر آیا جو کسی ایسے آدمی کی طرح تھا جس کو تم گندمی رنگ کا سب سے بہتر اور خوبصورت دیکھتے ہو ، اس کے ( سر پر ) بہت بال تھے جو کاندھوں تک لٹکے ہوئے تھے اور بالوں کے اعتبار سے بھی وہ کسی ایسے شخص کے مشابہ تھا جس کو تم اس قسم کے بال رکھنے والوں میں سے سب سے خوبصورت دیکھتے ہو، اس کے بالوں میں کنگھی کی گئی تھے اور بالوں سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے وہ شخص دو آدمیوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے خانہ کعبہ کا طواف کر رہا تھا ! میں نے ( اس شخص کو دیکھ کر طواف کرنے والوں سے ) پوچھا کہ یہ کون ہے ۔ انہوں نے جواب دیا کہ یہ مسیح ابن مریم ہیں ! اسی کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر اچانک میری نظر سے ایک شخص گزرا جس کے بال گھونگریالے اور بہت کھڑے تھے ، وہ داہنی آنکھ سے کانا تھا ، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے اس کی آنکھ انگور کا پھولا ہوا دانہ یا بے نور ہے ، جن لوگوں کو میں نے دیکھا ہے ان میں سے وہ ابن قطن کے بہت مشابہ تھا ، وہ شخص بھی دو آدمیوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے خانہ کعبہ کا طواف کر رہا تھا ، میں نے اس کے بارے میں بھی پوچھا کہ یہ کون ہے ؟ تو لوگوں نے جواب دیا کہ یہ مسیح دجال ہے " بخاری ومسلم ) ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کے بارے میں فرمایا کہ " وہ ایک شخص ہے جس کی آنکھیں سرخ ہیں ، سر کے بال گھونگریالے ہیں ، داہنی آنکھ سے کانا ہے ، مشابہت کے اعتبار سے لوگوں میں ابن قطن اس کے بہت قریب ہے ۔ "
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث لا تقوم الساعۃ حتی تطلع الشمس من غربہا الخ باب الملاحم میں نقل کی جا چکی ہے نیز حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت قام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الناس ۔۔ الخ۔ کو انشاء اللہ ہم ابن صیاد کے قصہ کے باب میں نقل کریں گے ۔

تشریح
" بالوں سے پانی ٹپک رہے تھے ۔ " میں پانی سے مراد یا تو وہ پانی ہے جو نہانے کے بعد بالوں میں لگا رہتا ہے اور کنگھی کرنے کے بعد بالوں سے ٹپکنے لگتا ہے اور وہ پانی بھی مراد ہو سکتا ہے جس میں کنگھی کو بھگو کر بال سنوراتے ہیں ، یا پانی کے قطرے ٹپکنے سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی انتہائی پاکیزگی ولطافت اور ترو تازگی کو کنایۃ بیان کرنا ہے ۔
" جیسے اس کی آنکھ انگور کا پھولا ہوا دانا ہے ۔ " کے بارے میں قاضی عیاض نے یہ لکھا ہے کہ دجال کی داہنی آنکھ تو بالکل سلپٹ یعنی ہموار ہوگی ( کہ اس جگہ آنکھ کا نام ونشان بھی نہیں ہوگا ) اور بائیں آنکھ موجود تو ہوگی لیکن اس میں بھی پھولا ہوا ٹینٹ ہوگا ۔
" ابن قطن " سے مراد عبد العزی ابن قطن یہودی ہے جس کے بارے میں پیچھے بیان ہو چکا ہے !لفظ کا شبہ " میں کاف زائد ہے جو اظہار مبالغہ کے لئے استعمال ہوا ہے ! دجال کو ابن قطن کے ساتھ تشبیہ دینے کی وجہ یہ ہے کہ شاید ابن قطن کا جسمانی حلیہ کچھ اس طرح کا رہا ہوگا جیسا کہ دجال کا ہوگا یا اس اعتبار سے تشبیہ دی گئی ہے کہ اس کی آنکھ بھی ٹینٹ یعنی پھلی تھی ۔
دجال جن دو آدمیوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے طواف کرتا نظر آیا تھا بظاہر ان سے مراد وہ دو شخص ہیں جو اس (دجال ) کے رفیق ومددگار ہوں گے جیسا کہ ان دو شخصوں سے مراد کہ جن کے کاندھے پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہاتھ رکھے ہوئے طواف کرتے ہوئے نظر آئے تھے ، وہ دو شخص ہیں جو حق کے راستہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معین ومددگار ہوں گے اور شاید وہ دونوں حضرات خضر علیہ السلام اور حضرت مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں ! اس موقع پر اشکال واقع ہوتا ہے کہ دجال کافر ہے ، اس کو طواف کی حالت میں دکھایا جانا کیا معنی رکھتا ہے ؟ اس کا جواب علماء کرام نے یہ دیا ہے کہ مذکورہ واقعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مکاشفات میں سے ہے، جس کا تعلق خواب سے ہے اور اس کی تعبیر یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس خواب میں گویا یہ دیکھایا گیا کہ ایک وہ دن آئے گا جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام دین اور مرکز دین کے اردگرد رہیں گے تاکہ دین کو قائم کریں اور فتنہ و فساد سے اس کی حفاظت کریں اور دجال بھی دین اور مرکز دین پر منڈلاتا پھرے گا تاکہ گھات لگا کر دین کو نقصان پہنچائے اور فتنہ وفساد پھیلانے میں کامیاب ہو جائے بعض حضرات نے ایک جواب یہ دیا ہے کہ مکہ مکرمہ پر اسلام کا غلبہ ہونے اور مشرکوں کو مسجد حرام کے قریب جانے کی مخالفت نافذ ہونے سے پہلے بہر حال کافر ومشرک بھی خانہ کعبہ کا طواف کیا کرتے تھے، پس اگر دجال بھی طواف کرتا ہو تو اس میں اشکال کی بات کیا ہے ایک یہ بات بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مکاشفہ یا خواب سے ، موجودات کی دنیا میں کسی کافر کا طواف کرنا ہرگز لازم نہیں آتا ، جب کہ کفار اور مشرکین کے لئے خانہ کعبہ کے طواف کی ممانعت کا تعلق موجودات کی اس دنیا سے ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں