مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان ۔ حدیث 565

مرض الموت میں ارادئہ تحریر کا قصہ

راوی:

وعن ابن عباس قال : لما حضر رسول الله صلى الله عليه و سلم وفي البيت رجال فيهم عمر بن الخطاب قال النبي صلى الله عليه و سلم : " هلموا أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده " . فقال عمر : إن رسول الله صلى الله عليه و سلم قد غلب عليه الوجع وعندكم القرآن حسبكم كتاب الله فاختلف أهل البيت واختصموا فمنهم من يقول : قربوا يكتب لكم رسول الله صلى الله عليه و سلم . ومنهم يقول ما قال عمر . فلما أكثروا اللغط والاختلاف قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " قوموا عني " . قال عبيد الله : فكان ابن عباس يقول : إن الرزيئة كل الرزيئة ما حال بين رسول الله صلى الله عليه و سلم وبين أن يكتب لهم ذلك الكتاب لاختلافهم ولغطهم
وفي رواية سليمان بن أبي مسلم الأحول قال ابن عباس : يوم الخميس وما يوم الخميس ؟ ثم بكى حتى بل دمعه الحصى . قلت : يا ابن عباس وما يوم الخميس ؟ قال : اشتد برسول الله صلى الله عليه و سلم وجعه فقال : " ائتوني بكتف أكتب لكم كتابا لا تضلوا بعده أبدا " . فتنازعوا ولا ينبغي عند نبي تنازع . فقالوا : ما شأنه أهجر ؟ استفهموه فذهبوا يردون عليه . فقال : " دعوني ذروني فالذي أنا فيه خير مما تدعونني إليه " . فأمرهم بثلاث : فقال : " أخرجوا المشركين من جزيرة العرب وأجيزوا الوفد بنحو ما كنت أجيزهم " . وسكت عن الثالثة أو قالها فنسيتها قال سفيان : هذا من قول سليمان . متفق عليه

اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ (یوم وفات یعنی دو شنبہ سے تین دن قبل پنجشنبہ کے دن ) اس وقت جب کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر مرض کا شدید غلبہ تھا اور گھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر مرض کے قریب حضرت عمر بن الخطاب سمیت بہت سے لوگ موجود تھے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (اچانک فرمانے لگے : لاؤ میں تمہارے لئے ایک تحریر لکھ دوں تاکہ اس کے بعد تمہاری گمراہی کا کوئی سوال پیدا نہ ہو، حضرت عمر (یہ سن کر وہاں موجود لوگوں سے کہا : (اس وقت) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بیماری کا شدید غلبہ ہے ، ویسے تم لوگوں پاس قرآن موجود ہی ہے اور تمہیں (راہ مستقیم پر گامزن رکھنے کے لئے ) یہ اللہ کی کتاب بہت کافی ہے لیکن وہ لوگ جو (اہل بیت میں سے بھی تھے اور دوسرے صحابہ میں بھی اور اس وقت ) گھر میں موجود تھے (اس مسئلہ میں خاموشی اختیار کرنے کی بجائے ) آپس میں بحث مباحثہ کرنے لگے ، ان میں سے کچھ لوگ تو یہ کہہ رہے تھے (لکھنے کا سامان ) لا کر سامنے رکھ دینا چاہے تاکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے لئے کوئی تحریر مرتب فرمادیں اور کچھ لوگ وہی بات کہہ رہے تھے جو حضرت عمر نے کہی تھی (کہ مرض اور تکلیف کی شدت دیکھتے ہوئے اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو زحمت نہیں دینی چاہئے اور پھر جب ان لوگوں کے اختلاف رائے کا اظہار بڑھتا ہی رہا اور کافی شوروشغب ہونے لگا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اچھا اب تم سب لوگ میرے پاس سے اٹھ کر چلے جاؤ (میں نے کوئی چیز لکھنے کا ارادہ ترک کردیا ہے کیونکہ کتاب وسنت کی موجودگی ہی تمہارے لئے کافی ہوگی ، عبیداللہ (جو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے اس حدیث کے روای ) ہیں کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (یہ واقعہ بیان کر کے ) کہا کرتے تھے : مصیبت ہے پوری مصیبت جو ان لوگوں کے اختلاف اور شوروشغل کی صورت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصیت نامہ لکھنے کے ارادہ کے درمیان حائل ہوگئی تھی (کاش وہ لوگ اس طرح اختلاف کا اظہار اور شورشغب نہ کرتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوئی ایسا وصیت ضرور مرتب فرمادیتے جو مرحلہ پر ہم سب کی رہنمائی کرتا رہتا ) اور سلیمان ابن مسلم احوال (جوثقات اور ائمہ دین میں سے ہیں ) کی روایت میں یوں ہے کہ حضرت ابن عباس نے کہا (آہ ) جمعرات کا دن ، وہ جمعرات کا دن کیا عجیب تھا (جب ایک زبر دست المیہ واقع ہوا تھا ) اور یہ کہ کر رونے لگے اور اتنا روئے کہ (وہاں پڑے ہوئے سنگریزے ) ان کے آنسوؤں سے تر ہوگئے میں نے عرض کیا : ابن عباس (کون سی) جمعرات کے دن کا ذکر ہے اور اس دن ) کیا ہوا تھا (کہ آپ اتنے تأسف بھرے انداز میں اس کو بیان کر رہے ہیں ) حضرت ابن عباس نے فرمایا : (یہ اس جمعرات کا دن کا ذکر ہے ) جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری بہت نازک صورت حال اختیار کر گئی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے شانہ کی ہڈی لا کر دو تاکہ میں تمہارے لئے ایک ایسا نوشتہ لکھ دوں جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہوسکو (ا سوقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود ) لوگوں نے (یہ بات سن کر ) اختلاف ونزاع کا اظہار شروع کردیا حالانکہ نبی کے سامنے اختلاف ونزاع کا اظہار مناسب نہیں ہے ۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے کہا تھا کہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کس حالت کی غماز ہے ؟ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (دنیا کو) چھوڑ رہے ہیں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم کرنا چاہئے (کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرما رہے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا منشاہے ؟ ) اور پھر ان (میں سے بعض ) لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تکرار کرنا شروع کر دیا تھا ، آخر کار سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھ کو چھوڑ دو مجھے اپنی حالت پر رہنے دو (یعنی اس وقت میرے پاس شوروشغب مت کرو اور مجھے دوسری باتوں میں نہ الجھاؤ ) کیونکہ اس وقت میں جس حالت میں ہوں اس حالت سے بہتر وافضل ہے جس کی طرف تم مجھے متوجہ کر رہے ہو اس کے بعد (جب لوگوں نے بحث وتکرار ختم کردی اور ذات رسالت کی طرف متوجہ ہوئے تو ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو تین باتوں کا حکم دیا : ایک یہ کہ مشرکوں کو جزیرہ عرب سے نکال دو ، دوسرا یہ کہ (دوسرے ملکوں اور حکومتوں کے ) جوایلچی اور قاصد آئیں ان کے ساتھ عزت واحترام کا وہی برتاؤ کرو جو میں کرتا تھا ، اور تیسری بات پر ابن عباس نے (یا تو بھول جانے کی وجہ سے یا اختصار کی خاطر ) خاموشی اختیار کرلی یا یہ کہ ابن عباس نے وہ تیسری بات بھی بیان کی تھی لیکن میں اس کو بھول گیا ہوں سفیان ابن عیینہ کہتے ہیں : یہ الفاظ (کہ ابن عباس نے خاموشی اختیار کی " یایہ کہ " میں اس کو بھول گیا ہوں ) سلیمان احوال کے ہیں ۔" (بخاری ومسلم )

تشریح :
لاؤ میں تمہارے لئے نوشتہ لکھ دوں " کے تحت نووی نے شرح مسلم میں لکھا ہے : یہ ناممکن اور محال تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹ بولتے ، یہ بھی ناممکن اور محال تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم احکام شریعت میں سے کسی بھی چیز میں کوئی تغیر وتبدل کرتے خواہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تندرست وتوانا ہوتے یا مرض میں مبتلا، یہ بھی ناممکن اور محال تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس چیز کو بیان ونافذکرنا ضروری سمجھتے جس کا بیان ونفاذ کا حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف دیا جاتا ، اور یہ بھی ناممکن اور محال تھا کہ جس چیز کی تلقین وتبلیغ کرنا اللہ نے آپ کے لئے واجب اور ضروری قرار دیا تھا اس کی تلقین وتبلیغ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف نظر کرلیتے (کیونکہ یہ سب وہ قبائح ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معصوم بنایا تھا ، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی چیزوں کے صدور کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ، ہاں یہ بات ناممکن اور محال نہیں تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی ایسے جسمانی مرض میں مبتلانہ ہوتے جس سے نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتبہ نبوت اور شان رسالت کو کوئی نقصان پہنچتا ، اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت پر کوئی فرق پڑتا یہی وجہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سحر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی زد میں آگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعضائے جسمانی اور حو اس اس حد تک متاثر ہوگئے تھے کہ ایک کو سمجھتے کہ میں کرچکا ہوں حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو نہ کیا ہوتا ، تاہم اس حالت میں بھی اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتبہ عصمت کو اس طرح محفوظ رکھا کہ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے احکام شریعت کے بارے میں ایسی کوئی بات نہیں نکلی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی کہی بات کے مخالف ہوتی (یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیال وعمل کا مذکورہ تخالف کسی ایسے معاملہ میں رونما نہیں ہوا جس کا تعلق دینی وشرعی معمولات وعبادات سے ہوتا ) نیز روایت میں جو یہ بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض وفات کے آخری دنوں میں کوئی نوشتہ مرتب کرنے کا ارادہ فرمایا تھا اور پھر اس ارادہ کو پورا نہیں فرمایا تو اس کے متعلق مختلف اقوال ہیں ۔ مثلا بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ چاہا تھا کہ تحریری طور پر اپنے صحابہ میں سے کسی ایک کو منصب خلافت کے لئے نامزد فرمادیں تاکہ بعد میں عام مسلمانوں کے درمیان کوئی اختلاف ونزاعی صورت حال پیدا نہ ہو بعض دوسرے حضرات کا قول یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل منشاء ایک ایسا نوشتہ تیار کرا دینا تھا جس میں دین وشریعت کے اہم احکام ومسائل کی تدوین وترتیب اور ان کی محض وضاحت ہوتی ، تاکہ بعد میں علمائے امت ان احکام وہدایت کے بیان اور ان کی وضاحت وترجمانی میں اختلاف ونزاع کا شکار نہ ہوں اور منصوص علیہ پر امت میں کامل اتفاق واتحاد رہے ، یہاں تک نووی کے ملفوضات تھے اور ان ملفوضات کو ملاعلی قاری نے یہ صرف نقل کیا ہے بلکہ مذکورہ دونوں اقوال نقل بھی کیا ہے چنانچہ انہوں نے پہلے قول کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ تو بہت ہی بعید از حقیقت ہے کیونکہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ میں سے کسی کو خلافت کے لئے نامزد کرنا اور مثلا حضرت ابوبکر ، حضرت عمر حضرت عباس اور حضرت علی وغیرہ ہم میں سے کسی ایک کے نام کو متعین ومشخص کرنا چاہتے تو اس کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کونوشتہ یادستاویز مرتب کرنے کی ضرورت ہرگز نہیں تھی ، صرف زبان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کہہ دینا کافی تھا ، اور ایسا ہوا بھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر کو اپنی زندگی ہی میں نماز کی امامت کے لئے متعین فرما کر نہ صرف عملی طور پر ان کی خلافت کی طرف اشارہ فرما دیا تھا بلکہ اپنے ارشاد یابی اللہ والمؤمنون الاابابکر کے ذریعہ زبانی طور پر صراحت بھی فرما دی تھی ہاں اگر یہ کہا جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دراصل ایک ایسا نوشتہ مرتب فرما دینا چاہتے تھے جس میں خلافت کے اہل اور مستحق افراد کی نامزدگی کا ایسا طریقہ لکھا ہوتا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سے امام مہدی کے ظہور اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول تک یکے بعد دیگرے بلا کسی اختلاف ونزاع کے خلافت کے تقرر کو بروئے کار لاتا رہتا ، تو یہ ایک ایسی بات ہوسکتی ہے جس کو کسی حدتک معقول اور قرین قیاس کہا جاسکتا ہے اور اس صورت میں کہا جائے گا کہ حکمت الٰہی چونکہ یہی تھی کہ خلافت کا مسئلہ ہمیشہ کے لئے طے شدہ اور ظاہر ہوجانے کے بجائے غیر متعین اور پوشیدہ رہے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہ تحریر مرتب نہ فرماسکے دوسرے قول کے بارے میں ملاعلی قاری نے یہ لکھا ہے کہ جہاں تک خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کا تعلق ہے تو ظاہر ہے کہ اس وقت دین وشریعت کے اہم احکام ومسائل کے متعلق کوئی باہمی اختلاف ونزاع نہیں تھا کہ اس کے ختم کرنے اور صحابہ کے درمیان اتحادواتفاق قائم کرنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی نوشتہ کے تحریر کرنے کی ضرورت محسوس فرماتے ، رہی یہ بات کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارادہ تحریر کا تعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کے زمانہ میں ممکنہ اختلاف و نزاع کے دفعیہ سے تھا تو یہ بات بھی قرین قیاس معلوم نہیں ہوتی کیونکہ زمانہ نبوت کے بعد دینی احکام ومسائل کی وضاحت وترجمانی اور مسائل قیاسی میں علماء امت کے درمیان اختلاف کا پیدا ہونا محض امکان کے درجہ کی چیز نہیں تھی بلکہ ایک حقیقی چیز تھی جس کے بارے میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی خبر دی دے دی تھی ، مثلا ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : اختلاف امتی رحمتہ یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی : اصحابی کالنجوم یایہم اقتدیتم اہتدیتم یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : علیکم بالسواد الاعظم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : استفت قلبک وان افتاک المفتون : ویسے بھی تمام لوگوں کا کسی نقطہ پر جمع ہوجانا اور دین ومذہب میں باہمی اختلاف کا رونما ہونا ایک ایسی ناممکن بات ہے جس کی خبر خو قرآن کریم نے بھی دی ہے مثلا فرمایا گیا ہے : ولایزالون مختلفین الا من رحم ربک وبذالک خلقہم یعنی اور لوگ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے مگر جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رب کی رحمت ہو اور اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو اسی لئے پیدا کیا ہے ۔ اگر زمانہ رسالت کے بعد دینی معاملات ومسائل میں امت (یعنی علماء ومجتہدین ) کے درمیان پیدا ہونے والے باہمی اختلاف کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو واضح احکام وہدایات کو مرتب کرانا ہوتا تو اس کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی کے ان آخری لمحات میں ارادہ نہ فرماتے بلکہ بہت پہلے ہی جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو ان آئندہ اختلاف کی خبردیا کرتے تھے ، مذکورہ نوشتہ تحریر فرمادیتے علاوہ ازیں یہ بات بھی سمجھ میں نہ آنے والی نہیں ہے کہ دین وشریعت کے وہ تمام احکام ومسائل جن کے نزول اور وجوب ونفاذ کا زمانہ بیس سال کے عرصہ پر پھیلا ہوا تھا ، آخری ایام حیات کے اس مختصر ترین عرصہ میں کس طرح سمیٹے جا سکتے تھے اور یہ کیسے تھے اور یہ کیسے ممکن تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ان تمام احکام ومسائل کو اس طرح ملخص ومرتب فرمادیتے کہ ائندہ ان کے بارے میں کسی اختلاف کی ذرہ برابر گنجائش باقی نہ رہ جاتی ۔ لہٰذا اس قول کو تسلیم کرناممکن نہیں ، ہاں یہ بات تو ایک حد درجہ میں کہی جاسکتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت ایک ایسا نوشتہ لکھنے کا ارادہ فرمایا تھا جس میں ان احکام ومسائل کا ذکر ہوتا کہ جو پچھلے زمانوں میں تو موجود تھے لیکن کتاب وسنت میں ان کا ذکر نہیں ہے ، یا یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس نوشتہ میں مسلمانوں کے فرقہ ناجیہ کے طور طریقوں اور علامتوں کو ذکر کرنا اور ان گمراہ فرقوں کے احوال وعواقب کو تفصیلی طور پر بیان کرنا چاہتے تھے جو بعد میں اس امت کے درمیان پیدا ہوئے جیسے معتزلہ ، خوارج ، روافض ، اور تمام بدعتی ، لیکن حکمت الٰہی کو یہ منظور نہ تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ نوشتہ تیار نہ فرما سکے ۔
(اس وقت) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بیماری کا شدید غلبہ ہے اس بات سے حضرت عمر کا مطلب یہ تھا کہ تم لوگوں کی دینی زندگی کو سنوارنے اور مستحکم رکھنے کے لئے اللہ کی کتاب موجود ہی ہے جس کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
یعنی تم سب اللہ کی رسی (قرآن ) کو مضبوطی سے تھامے رہو ۔ رہی حدیث وسنت کی بات تو وہ بھی قرآن ہی کے ضمن میں آتی ہے کیونکہ حدیث وسنت کا اصل وموضوع قرآن کی وضاحت وترجمانی ہی ہے ۔ پس حضرت عمر کا مقصد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو کاٹنا نہیں تھا بلکہ ان کے مخاطب تو وہ لوگ تھے جنہوں نے اس وقت بحث ونزاع شروع کردی تھی اور اس بات پر اصرار کر رہے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لکھنے کا سامان لے آنا چاہئے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر مرض کا شدید غلبہ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سخت کرب میں مبتلاہیں زیادہ سے زیادہ راحت وآرام کا موقع آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملنا چاہئے دوسرے یہ کہ ان کی فراست نے جان لیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم وجوب وجزم کے ساتھ نہیں ہے بلکہ خود صحابہ اور مسلمانوں کی مصلحت کے تحت ہے کہ اگر وہ اس پر عمل کریں تو یہ ان کا اختیار ہے اور اگر عمل نہ کریں تو ان کی مرضی چنانچہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمیشہ معمول تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی معاملہ میں ایسا حکم دیتے جو وجوب ولزوم کے ساتھ نہ ہوتا تو صحابہ کرام کو اس میں اظہار رائے کی پوری آزادی ہوتی اگر وہ اس میں اشکال وترددکا اظہار کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس حکم کی تعمیل کو ضروری قرار نہ دیتے بلکہ صحابہ کی رائے اور صوابدید پر چھوڑ تے تھے ہاں جو حکم وجوب ولزوم کے طور پر ہوتا ہے اس کی تعمیل ضروری ہوتی ، اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کی رائے اور صوابدید پر نہ چھوڑتے تھے نیز حضرت عمر کو یہ احساس بھی ہوا ہوگا کہ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ تحریر فرمانا چاہتے ہیں شاید وہ کوئی ایسا حکم ہو جس کی تعمیل صحابہ کے لئے شاق اور سخت دشواری کا باعث بن جائے اور پھر اس کی وجہ سے پوری امت کو کسی فتنہ اور آزمائش سے دوچار ہونا پڑجائے لہٰذا اپنے مذکورہ الفاظ کے ذریعہ انہوں نے اس طرف اشارہ کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے اس ارادہ کو ترک کردینا ہی اولی ہے اور ان کے اس اشارہ کوسمجھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ارادہ کو ترک بھی فرما دیا اس کی مثال وہ واقعہ ہے جو ابتدائے کتاب (باب الایمان ) میں گذرا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کہ جا کر لوگوں کو بشارت دے دو کہ جس شخص نے لاالہ الا اللہ ۔ کہا وہ جنت میں داخل ہوگا اور پھر جب ابوہریرہ نے یہ بشارت سب سے پہلے حضرت عمر تک پہنچائی تو انہوں نہ صرف یہ کہ حضرت ابوہریرہ کو یہ بشارت اور لوگوں تک پہنچانے سے روک دیا بلکہ دربار رسالت میں عرض کیا کہ (یہ بشارت عام نہ کیجئے ورنہ ) لوگ اسی پر بھروسہ کر کے بیٹھ جائیں گے اور عمل کرنے میں سست ہوجائیں گے ، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر کے اس مشورہ کو قبول فرما لیا اور اس بشارت کو عام لوگوں تک پہنچانے کا حکم واپس لے لیا ان وضاحتوں کے علاوہ ایک بات یہ بھی کہی جاسکتی ہے کہ جس طرح حضرت عمر کے دوسرے موافقات ہیں کہ کئی مسئلوں میں ان کا اتفاق بصورت اختلاف ظاہر ہواہے اسی طرح اس واقعہ کو اور ان کے مذکورہ قول کو بھی موافقت ہی پر محمول کیا جائے اس صورت میں مخالفت کا الزام ان پر اٹھ جائے گا اس پہلو کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر کی بات سن کرسکوت فرمایا یعنی کوئی ہدایت نامہ یا وصیت نامہ لکھنے کا ارادہ ترک کردیا ۔
ایک طبقہ کا کہنا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم ازخود نہیں دیا تھا بلکہ صورت حال یہ ہوئی تھی کہ پہلے بعض صحابہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی تھی کہ کچھ وصیتی کلمات تحریر فرما دیں ، ان کی درخواست پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لکھنے کا اپنا رجحان ظاہر کیا اور سامان کتابت لانے کا حکم دیا مگر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ کچھ کہ کچھ صحابہ جیسے حضرت عمر اور ان کی تائید کرنے والوں کارجحان اس کے خلاف ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تحریر کا ارادہ ترک فرمادیا بیہقی نے لکھا ہے : سفیان ابن عیینہ نے ثقہ اہل علم سے نقل کیا ہے کہ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ چاہتے تھے کہ منصب خلافت کے لئے حضرت ابوبکر کونامزد کردیں اور اس کے بارے میں ایک تحریر مرتب فرما دیں لیکن بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اعتماد پر تحریرکا ارادہ ترک کردیا کہ تقدیر الہٰی کا فیصلہ خود بخود سامنے آجائے گا اور عام مسلمان بھی اس فیصلہ سے انحراف نہیں کریں گے ) چنانچہ آپ کا ارشاد گرامی یابی اللہ والمؤمنون الاابابکر (اللہ تعالیٰ اور تمام ابوبکر کے علاوہ اور کسی کو خلافت کے لئے قبول نہیں کرینگے ) سے اس کی تائید بھی ہوتی ہے (یہ حدیث تفصیل کے ساتھ آگے آرہی ہے )
رہی شعیوں کی بات جو یہ دعوی کرتے ہیں کہ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادہ تحریر کا اصل مقصد حضرت علی کے حق میں خلافت کی وصیت کرنا تھا تو وہ خود اپنے دعوؤں کے باہمی تضاد کا شکار ہیں ، ایک طرف تو وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں اور دوسری طرف ان کا دعویٰ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے " غدیرخم" میں پہلے ہی حضرت علی کی خلافت کا معاملہ طے کردیا تھا ۔ کوئی ان سے پوچھے کہ تمہارے قول کے مطابق جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کی خلافت کا فیصلہ پہلے کردیا تھا تو پھر اب وصیت نامہ لکھنے کی ضرورت کیا باقی رہ گئی تھی ۔
" تم سب لوگ میرے پاس سے اٹھ کر چلے جاؤ " گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں پرواضح کردیا کہ میں نے اس اعتماد اور بھروسہ پر اب کچھ لکھنے کا قصہ چھوڑ دیا ہے کتاب وسنت کی موجود گی ہی تمہاری ہدایت ورہنمائی کے لئے کافی ہے اس موقع پر نووی نے لکھا ہے کہ اس وقت یا تو یہ صورت حال پیش آئی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے مفاد ومصلحت میں بعض چیزیں تحریر میں لے آنا خود اپنی رائے اور اپنے خیال کے مطابق مناسب سمجھا تھا لیکن پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ دیکھا کہ کچھ نہ لکھناہی عین مصلحت ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رائے اور اپنا خیال تبدیل کردیا یا یہ ہوا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارادہ وحی کے ذریعہ کے ذریعہ خدائی ہدایت آنے کے بعد کیا لیکن پھر بعد میں دوسری وحی کے ذریعہ جب اس ارادہ کو موقوف کردینے کا حکم آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھنے کا ارادہ ترک فرما دیا ۔ نووی نے یہ لکھا ہے کہ حضرت عمر نے اس موقع پر (وہاں موجود لوگوں کو مخاطب کرکے) جو یہ فرمایا تھا کہ حسبکم کتاب اللہ یعنی تمہارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے ، تو اس سے ان کے کمال تفقہ اور فہم ونظر کا اظہار ہوتا ہے ، دراصل حضرت عمر کو یہ خوف ہوا کہ کہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے احکام تحریر فرما دئے جس پر عمل کرنا عام مسلمانوں کے لئے ممکن نہ ہوسکا تو ان احکام کے منصوص ہونے کے سبب ان میں اجتہاد وتاویل کی قطعا گنجائش نہ ہوگی اور لوگ ان پر عمل نہ کرنے کی بنا پر عذاب الہٰی کے مستوجب ہوجائیں گے ۔ نیز انہوں نے اپنے قول حسبکم کتاب اللہ کے ذریعہ گویا اللہ تعالیٰ کے ارشاد مافرطنا فی الکتاب من شیأاور ارشاد الہٰی الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی کی طرف اشارہ کیا ۔
" مصیبت ہے پوری مصیبت " اس جملہ کے ذریعہ حضرت ابن عباس نے دراصل اس موقع پر صحابہ کے اظہار اختلاف اور شوروشغب کو ایک ایسی بری صورت حال سے تعبیر کیا جس نے آنحضرت کو اپنے ارادہ تحریر کی تکمیل سے باز رکھا ، ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ کاش، وہ لوگ اختلاف ونزاع کا اظہار کرتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوئی ایسا نوشتہ مرتب فرما دیتے جو امت کے لئے ہمیشہ ہدایت وراستی کا ذریعہ بنتا گویا حضرت ابن عباس کا رجحان حضرت عمر اور ان کے مؤیدین کی رائے کے خلاف تھا اور وہ اس بات کے حق میں تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت لکھنے کا موقع ضرور دینا چاہے بیہقی نے اپنی کتاب دلائل النبوۃ میں لکھا ہے کہ حضرت عمر کا اصل مقصد یہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مرض کے اس شدید غلبہ کے وقت لکھنے کی زحمت اور تکلیف برداشت نہ کریں ، اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کوئی چیز لکھنا ضروری اور واجب سمجھتے تو حضرت عمر یا کسی کے بھی اختلاف رائے کے اظہار سے اپنا ارادہ موقوف نہ فرماتے ، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا حکم تھا : بلغ ما انزل الیک من ربک (جوبھی بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رب کی طرف سے آپ پر نازل ہو اس کو لوگوں تک پہنچا دیئجے ) چنانچہ جو باتیں لوگوں تک پہنچانی ضروری تھیں ان کی تبلیغ واشاعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرصورت میں کی اگرچہ دشمنان دین اور مخالفین اسلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لاکھ مخالفت کی ، یا جیسا کہ اسی موقع پر ہوا کہ جس چیز کی وصیت وہدایت کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ضروری سمجھا (یعنی جزیرہ عرب سے یہودیوں کا نکالنا وغیرہ ) اس کی ہدایت آپ نے کی غرضیکہ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو چیز لکھنا چاہتے تھے وہ چونکہ ضروری نہیں تھی اس لئے حضرت عمر کی عقل میں آیا کہ شدت مرض کے کرب اور بے چینی کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لکھنے کی زحمت کیوں دی جائے اور پھر دین وشریعت کا ایسا کون سا حکم اور ہدایت ہے جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود نہیں ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : الیوم اکملت لکم دینکم اس ارشاد الہٰی سے جو مفہوم ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ دین وشریعت سے متعلق قیام قیامت تک پیش آنے والی ایسی کوئی چیز نہیں ہے جس کا حکم اور مسئلہ کتاب وسنت میں خواہ دلالۃ خواہ صراحۃ موجود نہ ہو حضرت عمر کے معمولی فہم وادراک میں ایک یہ بات بھی آگئی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوئی ایسا نوشتہ مرتب فرمانا ہیں جس میں دینی احکام ومسائل کا بطریق اتمام بیان ہو اس صورت میں اجتہاد کا جواز ختم ہوجائے گا اور اہل علم واستنباط پر اجتہاد کا دروازہ بند ہوجائے گا لہٰذا انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شدت مرض میں لکھنے کی تکلیف سے بچانے اور ارباب اجتہاد کو ان کی فضیلت سے محروم نہ ہونے دینے کی نیت سے اسی بات کوزیادہ اچھا سمجھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تحریر کا ارادہ ترک فرمادیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر کی بات کو رد نہ کرکے اور اپنے ارادہ تحریر کو ترک فرما کر گویا حضرت عمر اور ان کے مؤیدین کے فہم وادراک سے کہیں زیادہ مضبوط اور قوی تھا ۔
" یہ کہہ کروہ رونے لگے اور اتنا روئے " حضرت ابن عباس کے رونے کا سبب یا تو یہ تھا کہ اس دن کا ذکر کرتے ہوئے ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا سانحہ یاد آگیا تھا ، یا یہ کہ ان کے گمان کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس دن جو نوشتہ مرتب فرمانا چاہتے تھے وہ چونکہ امت کے حق میں خیر کثیرکا باعث بنتا اس لئے یہ سوچ کر اس نوشتہ کے نہ لکھے جانے سے امت خیر کثیر سے کس طرح محروم ہوگئی ان کا دل بھر آیا وہ رونے لگے یہ دوسرا احتمال اس موقع سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے ۔
" ایک ایسا نوشتہ لکھ دوں جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہوسکو " علماء لکھا ہے کہ عبارت کا ظاہری اسلوب صاف بتا رہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ دین وشریعت کے احکام ومسائل کو تفصیل و وضاحت کے ساتھ لکھنے کا تھا نہ کہ خلافت کے بارے میں کوئی وصیت کرنے کا ۔
" نبی کے سامنے اختلاف ونزاع کا اظہار مناسب نہیں ہے " عبارت کے سیاق سے بظاہر یہ مفہوم ہوتا ہم کہ جملہ حضرت ابن عباس کا اپنا ہے ، جس کو انہوں نے روایت کے درمیان داخل کیا ہے ، جب کہ بعض حضرات کہتے ہیں کہ اصل میں یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے جس کو اس موقع پر ابن عباس نے استدلال کے طور نقل کیا ہے ۔
" کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (دنیا کو) کو چھوڑ رہے ہیں " یہ لفظ اھجر کا ترجمہ ہے ، فتح الباری میں قرطبی کے حوالہ سے اس لفظ کے معنی میں کئی احتمال بیان کئے گئے ہیں ان میں سے ایک احتمال یہ نقل کیا گیا ہے کہ لفظ اہجردراصل ہجر (بمعنی چھوڑنا ) کا فعل ماضی ہے اور اس کا مفعول الحیٰوۃ محذوف ہے ، اسی احتمال کوزیادہ موزوں اور مناسب سمجھتے ہوئے ترجمہ میں اختیار کیا گیا ہے اور حضرت شیخ عبد الحق نے یہ ترجمہ بیان کیا ہے کہ : (یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کس حالت کی غماز ہے ؟) کیا ( شدت مرض کے سبب ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام مختط ہوگیا ہے ؟ (جیسے عام بیماروں کی حالت میں سمجھا جاتا ہے کہ ان کی زبان سے کبھی کچھ نہیں نکلتا ہے اور کبھی کچھ ) اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ یہ جملہ استفہام انکاری پر محمول اور ان لوگوں کا یہ خیال ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھنے کا سامان لانے کا حکم حو اس وشعور کے ساتھ نہیں دیا ہے بلکہ بیماری کی شدت کے سبب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ بات یونہی نکل گئی ہے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اس طرح کا گمان وخیال قائم کرلینا چونکہ نہایت غیرموزوں ہے لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کو پورا کرو اور لکھنے کا سامان لا کر رکھ دوتاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو لکھنا چاہتے ہیں لکھ دیں ۔
" اس حالت سے بہتر وافضل ہے جس کی طرف تم مجھے متوجہ کر رہے ہو " اس بات سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ تھا کہ اس وقت میں عالم آخرت کے سفر کی آخری تیار ی، پروردگار سے ملنے کے اشتیاق ، اور ذات حق میں تفکر واستغراق کی اعلی حالت میں ہوں ، لیکن تم لوگ آپس کے لفظی تکرار وبحث اور شوروشغب اور اظہار اختلاف کے ذریعہ میرا دھیان بٹانا چاہتے ہو اور اپنی طرف متوجہ کر رہے ہو۔ لہٰذا تم سب لوگ یہاں سے اٹھ کر چلے جاؤ تاکہ میں تمہاری ادنی حالت کے بجائے اپنی اعلی حالت کی طرف متوجہ ہوں اس موقع پر ملاعلی قاری نے خطابی کے حوالہ سے مشہور حدیث اختلاف امتی رحمتہ (میری امت کا اختلاف رحمت ہے ) کے بارے میں لکھا ہے کہ دین وشریعت میں اختلاف کی تین قسمیں ہیں ، ایک تو صانع یعنی اللہ تعالیٰ کے اثبات اور اس کی وحدانیت میں اختلاف ، پس یہ اختلاف (کہ جس کی بنیاد حق تعالیٰ کے وجود وحدانیت سے انکار پر ہوتی ہے ) صریح کفر ہے ، دوسرے حق تعالیٰ کی صفات اور مشیت میں اختلاف یہ اختلاف (کہ جس کی بنیاد ذات باری تعالیٰ کی صفات اور مشیت کے انکار پر ہوتی ہے ) بدعت اور گمراہی ہے ، اور تیسرا اختلاف (کہ جس کی بنیاد وہ ہے جو دین وشریعت کے ایسے فروعی احکام مسائل کے استنباط وبیان سے تعلق رکھتا ہے جو مختلف جہات اور متعدد معنی کا احتمال رکھتے ہیں اور یہی اختلاف ہے جو ارباب علم واجتہاد کے درمیان ہوتا ہے اور جس کو اللہ تعالیٰ نے علماء ومجتہدین کے لئے رحمت و کر امت قرار دیا ہے ملاعلی قاری نے مازری کے حوالہ سے یہ بھی لکھا ہے کہ اس موقع پر اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں موجود صحابہ کو امر (حکم ) فرمایا کہ (میرے پاس لکھنے کا سامان ) لاؤ میں تمہارے لئے ایک نوشتہ لکھ دوں تو صحابہ کے لئے اختلاف کی گنجائش کیا تھی اور انہوں نے (حکم کی فوری تعمیل کے بجائے ) اختلاف کا اظہار کیسے کیا ؟ تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ دراصل وہ اوامر (احکام ) کہ جن کے صدور میں کچھ خارجی قرائن بھی شامل ہوں ، ان کی حیثیت اور نوعیت تبدیل ہوسکتی ہے چنانچہ جو حضرات یہ کہتے ہیں کہ اوامر کی اصل وجوب ہے ان کے نزدیک بھی ان قرائن کے سبب وجوبکا حکم استحباب میں بدل جاتا ہے کہ جو حضرات کہتے ہیں کہ اوامر کی اصل استحباب ہے ان کے نزدیک بھی قرائن کے سبب استحقاق کا حکم وجوب میں بدل جاتا ہے پس ہوسکتا ہے کہ یہ حکم دیتے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے قرائن ظاہر ہوئے ہوں جن سے یہ واضح ہوا ہوگا کہ اس حکم کی تکمیل وجوب اور ضروری نہیں ہے بلکہ اختیاری ہے لہٰذا صحابہ نے اپنے اپنے اجتہاد کے تحت جس پہلو کو مناسب جانا اختیار کیا ۔ اور اسی سے ثابت ہوا کہ صحابہ کرام دین وشریعت کے معاملات میں ضرورت کے وقت اجتہاد کا سہارا لیتے تھے رہی یہ بات کہ حضرت عمر کے اجتہاد نے نوشتہ نہ لکھے جانے کے پہلو کو جو اختیار کیا تو اس کی بنیاد تو اس کی بنیاد کیا تھی ؟ توہوسکتا ہے کہ (ان کو یقین حاصل ہوا ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادہ اور حکم کا عدم وجوب ظاہر ہوتا ہے ۔
" مشرکوں کو جزیرہ عرب سے نکال دو" اس کی وضاحت باب اخراج الیہود من جزیرۃ العرب ۔ میں پیچھے گزر چکی ہے ، اسی طرح " جزیرہ عرب " کی تشریح بھی کتاب کے ابتدائی ابواب میں سے باب الوسوسۃ میں ہوچکی ہے ۔
" جو ایلچی وقاصد آئیں " اس کا حکم کا مطلب یہ تھا کہ دوسرے ملکوں اور سربراہان مملکت کے جوایلچی اور سفراء تمہارے ہاں آئیں ان کے مراتب اور ان حیثیت کے مطابق ان کے ساتھ اعز ازوتکر یم ، خاطر مدارت اور حسن سلوک واحسان کا معاملہ اسی انداز اور طور طریقے کی مناسبت کے ساتھ کرنا جو میرا معمول تھا آپ نے یہ حکم اس لئے دیا تھا کہ ایک طرف تواسلامی اخلاق ومعاملات کی بلندی کا اظہار ہودوسری طرف ان ایلچیوں اور قاصدوں کو خوشی واطمینان ہو اور ان کے ساتھ مسلمانوں کا حسن سلوک دیکھ کر مؤلفۃ القلوب میں سے دوسرے لوگوں کا رجحان اسلام اور مسلمانوں کی طرف بڑھے ۔علماء نے لکھا کہ حسن کا یہ حکم ہر قاصد وایلچی کے بارے میں ہے خواہ وہ مسلم ہویا غیر مسلم۔
" لیکن میں اس کو بھول گیا ہوں " کے تحت ملاعلی قاری نے تونووی کے حوالہ سے یہ لکھا ہے کہ (سفیان ابن عیینہ نے اس جملہ کی نسبت جس طور سے سلیمان احول کی طرف کی ہے وہ صحیح نہیں ہے ) بلکہ حقیقت میں خاموشی اختیار کرنے والے تو حضرت ابن عباس تھے اور لیکن میں اس کو بھول گیا ہوں کہنے والے حضرت سعید ابن جبیر ہیں جو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کے روای ہیں اور ان سے سلیمان احول نقل کرتے ہیں اور حضرت شیخ عبد الحق نے اپنی شرح میں " سکت " (خاموشی اختیار کرلی ) کا فاعل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قرار دیا ہے ، ان کے مطابق گویا یہ بات حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ یا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری بات فرمائی ہی نہیں ، یا یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری بات یہ فرمائی تھی مگر میں اس کو بھول گیا ہوں بہرحال محدثین نے لکھا ہے کہ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تیسری بات فرمائی تھی وہ حضرت اسامہ کے لشکر کا سامان درست کرنے کا حکم تھا کہ جس کی درستی اور تیاری میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشغول ہی تھے کہ مرض الموت میں مبتلا ہوگئے یا وہ تیسری بات قبربرستی کی ممانعت سے متعلق تھی جیسا کہ ایک روایت میں اس کے لئے یہ الفاظ منقول ہیں : لاتتخدواقبری وثنا یعبد (میری قبر کو بت مت بنا لینا کہ اس کو پوجا جانے لگے )۔

یہ حدیث شیئر کریں