مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان ۔ حدیث 567

مسجد نبوی کے منبر پر آخری خطبہ

راوی:

وعن أبي سعيد الخدري قال : خرج علينا رسول الله صلى الله عليه و سلم في مرضه الذي مات فيه ونحن في المسجد عاصبا رأسه بخرقة حتى أهوى نحو المنبر فاستوى عليه واتبعناه قال : " والذي نفسي بيده إني ؟ لأنظر إلى الحوض من مقامي هذا " ثم قال : " إن عبدا عرضت عليه الدنيا وزينتها فاختار الآخرة " قال : فلم يفطن لها أحد غير أبي بكر فذرفت عيناه فبكى ثم قال : بل نفديك بآبائنا وأمهاتنا وأنفسنا وأموالنا يا رسول الله قال : ثم هبط فما قام عليه حتى الساعة . رواه الدارمي

اور حضرت ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مرض وفات میں (ایک دن ) اپنے حجرہ سے نکل کر مسجد نبوی میں تشریف لائے جہاں ہم (پہلے سے ) بیٹھے ہوئے تھے ، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر کو کپڑا باندھ رکھا تھا (جیسا کہ درد سر کا مریض اپنے سر کو باندھے رکھتے ہے ) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر کی طرف چلے اور اس پر کھڑے ہوئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم بھی آگے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ) بیٹھ گئے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (حمد وثنا کے بعد ) فرمایا : قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں اس وقت اپنی جگہ (یعنی اس منبر پر کھڑا ہوا حوض کوثر کو دیکھ رہا ہوں " پھر فرمایا " ایک بندہ ہے جس کے سامنے (فانی دنیا اور دنیا کی (فانی) بہاریں پیش کی گئیں لیکن اس نے (مٹ جانے والی دنیا پر ) آخرت (کی کبھی نہ مٹنے والی تعمتوں ) کو ترجیح دے دی ہے " حضرت ابوسعید کہتے ہیں کہ اس ارشاد گرامی کے رمز سوائے ابوبکر کے کوئی نہ سمجھ سکا ، (زبان رسالت سے یہ الفاظ سن کر ) ابوبکر کی آنکھوں سے آنسوجاری ہوگئے اور وہ رونے لگے ، پھر بولے : (نہیں ) یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !(نہیں ، ایسی دلدوز بات نہ فرمائیے ) ہم اپنے باپوں کو ، ماؤں کو ، اپنی جانوں کو اور اپنے مالوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سے صدقہ کردیں گے ۔ حضرت ابوسعید کہتے ہیں کہ : اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر سے اتر کر تشریف لے گئے اور اس وقت تک پھر کبھی اس منبر پر نہ کھڑے نہ ہوئے (یعنی اس دن آپ کا منبر پر کھڑا ہونا آخری کھڑا ہونا تھا ) ۔" (دارمی )

تشریح :
دوسری روایتوں میں آتا ہے کہ حضرت جبرائیل نے آپ کی خدمت میں آکر عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ چاہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں ابھی اور رہیں اور ہم دنیا کے خزانے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کریں اور ان پہاڑوں کو آپ کے لئے سونا چاندی کا بنا دیں بغیر اس کے کہ ہمارے ہاں (آخرت میں ) آپ کے لئے جو درجہ اور اجر وانعام مقرر ہے اس میں ذرہ برابر کمی ہو اور چاہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آجائیں ۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرجھکا لیا (جیسا کہ کسی اہم فیصلہ کا اعلان کرنے سے پہلے ارباب غور وفکر سرجھکا کر سوچنے لگتے ہیں ) اور یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں میں سے ایک غلام وہاں موجود تھا اس نے جو یہ بات سنی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دولت وزر کی اتنی زبردست پیشکش کے ساتھ دنیا میں رہنے کا اختیار دیا جارہا ہے ) تو وہ بولا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس میں کیا حرج ہے اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ مدت اور دنیا میں رہنا منظور فرما لیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل میں حاصل ہونے والے مال وزر سے ہم لوگ بھی آرام وآسائش کی زندگی گزار لیں گے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غلام کی بات پر توجہ دینے کے بجائے نگاہ اٹھا کر حضرت جبرائیل علیہ السلام کی طرف دیکھا اور جاننا چاہا کہ پیشکش اور اختیار کا اصل مقصد کیا ہے اور (جب سمجھ گئے کہ اللہ تعالیٰ اصل مقصد اپنے پاس بلانا ہے تو) فرمایا : میں وہاں آنا چاہتا ہوں اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخرت کو اختیار کرلیا جس کو فنا نہیں ، زوال نہیں ، اور دنیا کوٹھکرا دیا جس کا انجام فنا اور زوال کے علاوہ کچھ نہیں اسی بنا پر بعض نے بہت خوب کہا ہے کہ اگر کسی سمجھ دار کو ایسے دو پیالوں میں سے کسی ایک پیالہ کو چن لینے کا اختیار دیا جائے جن میں سے ایک پیالہ تو مٹی کا ہولیکن پائیدار رکھتا ہو اور دوسرا پیالہ سونے کا ہو مگر پائداری نہ رکھتا تو وہ سمجھدار یقینا اس پیالہ پر کہ جو سونے کا ہم مگر جلد ہی ختم ہوجانے والا ہے اس پیالہ کو ترجیح دے گا جو مٹی کا ہونے کے باوجود پائیدار اور باقی رہنے والا ہے ، اور کہیں صورت حال اس کے برعکس ہو یعنی سونے کے پائیدار پیالہ اور مٹی کے پائیدار پیالہ اور مٹی کے غیر پائیدار پیالہ میں سے کسی ایک پیالہ کو پسند کرلینے کا اختیار ہو تو پھر کوئی انتہائی نادان اور بے وقوف ہی شخص ہوگا جو پائیدار سونے کے پیالہ کو چھوڑ کر جلد ضائع ہوجانے والے مٹی کے پیالہ کو پسند کرے گا ۔ پس جان لینا چاہئے کہ آخرت کی مثال اس پیالہ کی سی ہے جو پائیدار بھی ہے اور سونا کا بھی ہے جب کہ دنیا کی مثال اس پیالہ کی ہے جو نہ صرف مٹی کا ہے بلکہ جلد ضائع اور فنا ہوجانے والا ہے ، قرآن کریم میں اسی حقیقت کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے والاخرۃ خیروابقی اور آخرت ہی بہتر واعلی بھی ہے اور ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنے والا بھی ۔

یہ حدیث شیئر کریں