مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ قریش کے مناقب اور قبائل کے ذکر سے متعلق ۔ حدیث 604

قبیلہ دوس کے حق میں دعا

راوی:

وعن أبي هريرة قال : جاء الطفيل بن عمرو الدوسي إلى رسول الله صلى الله عليه وسل فقال : إن دوسا قد هلكت عصت وأبت فادع الله عليهم فظن الناس أنه يدعو عليهم فقال : " اللهم اهد دوسا وأت بهم " . متفق عليه

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں طفیل ابن دوسی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ (یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) مجھے یقین ہے کہ قبیلہ دوس ہلاک ہوگیا (یعنی اس قبیلہ کے لوگوں نے قبول اسلام اور اطاعت دین سے انکار کرکے خود کو ہلاکت وتباہی کا مستوجب بنا لیا ہے ) لہٰذا آپ سے قبیلہ کے لئے بددعا کیئجے (کہ اللہ تعالیٰ اس پر عذاب مسلط کرے ) لوگوں نے (تو یہ سن کر ) خیال کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس قبیلہ کے لئے بددعا کریں گے لیکن (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو رحمتہ اللعلمین ہیں اور لوگوں کو راہ راست دکھا کر فلاح ونجات سے ہمکنار کرنے کے لئے اس دنیا میں مبعوث ہوئے نہ کہ بددعا کرکے تباہ وبرباد کرنے کے لئے ، اس لئے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی : الہٰی قبیلہ دوس کو راہ راست دکھا اور اس قبیلہ کے لوگوں کو (مدینہ کی جانب ) لا یعنی ان کو قبول اسلام کے بعد ہجرت کی بھی توفیق عطا فرمایا یہ کہ ان کو اہل اسلام کے طور طریقوں کی طرف مائل فرما اور ان کے دلوں کو قبول اسلام کی طرف پھیر دے ۔' '(بخاری )

تشریح :
حضرت طفیل ابن عمر دوسی جلیل القدر صحابی ہیں ، قبیلہ اوس سے تعلق رکھتے تھے اور اہل حجاز میں شمار ہوتے تھے ، مکہ میں مشرف باسلام ہوئے اور پھر اپنے قبیلہ میں واپس چلے گئے ۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو بعد میں انہوں نے بھی اپنا قبیلہ اور وطن چھوڑ کر ہجرت کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موقع پر حاضر ہوا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر میں تھے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رحلت فرمانے تک مدینہ منورہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہے ان کو ذو النور " کا لقب حاصل تھا اور یہ لقب اس بناء پر مشہور ہوا تھا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اسلام کی تبلیغ کے لئے ان کے قبیلہ کی طرف روانہ فرمایا تو انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے کوئی ایسی نشانی عطا فرمادیجئے جس کو دیکھ کر لوگ میری تصدیق کریں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ، الہٰی اس کونور عطا فرما! اللہ تعالیٰ نے دعا قبول فرمائی اور ان کی دونوں آنکھوں کے درمیان نور جگمگا اٹھا ۔ اب انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے خوف ہے کہ لوگ اس نور کو میری بدہیئی پر محمول کرنے لگیں گے اس کے بعد وہ نور اس جگہ سے ان کی کوڑی پر منتقل ہوگیا ۔ اندھیری رات میں ان کے سینہ کا یہ حصہ اس طرح جگمگا تا جیسے ان کے سینہ پر مشعل روشن ہو حضرت طفیل اپنے قبیلہ میں پہنچ کر اسلام کی دعوت وتبلیغ کے کام میں منہمک ہوگئے ان کے باپ تو ان کی تبلیغ کے نتیجہ میں دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے تھے لیکن ان کی ماں کو ایمان کی ہدایت نصیب نہیں ہوئی ۔

یہ حدیث شیئر کریں