مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مناقب کا بیان ۔ حدیث 617

صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی برکت

راوی:

وعن عمران بن حصين قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " خير أمتي قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ثم إن بعدهم قوما يشهدون ولا يستشهدون ويخونون ولا يؤتمنون وينذرون ولا يفون ويظهر فيهم السمن " . وفي رواية : " ويحلفون ولا يستحلفون " . متفق عليه وفي رواية لمسلم عن أبي هريرة : " ثم يخلف قوم يحبون السمانة "

اور حضرت عمران ابن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " میری امت کے بہترین لوگ میرے قرن کے لوگ (یعنی صحابہ ہیں پھر وہ لوگ جو ان سے متصل ہیں (یعنی تابعی ) اور پھر وہ لوگ جو ان سے متصل ہیں ۔ اور پھر ان قرنوں کے بعد جن لوگوں کا زمانہ آئے گا ان میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جو نذر مانیں گے اور اپنی نذر کو پورا نہیں کریں گے اور ان میں موٹاپا فربہی پیدا ہوگی، اور ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ اور ایسے لوگ بھی ہوں گے جو (بلاضروت وبلاوجہ ) قسمیں کھائیں گے حالانکہ ان کو قسم نہیں دلائی جائے گی، (بخاری ومسلم ) اور مسلم کی ایک روایت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے یہ الفاظ ہیں کہ پھر ان لوگوں کے بعد ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو موٹاپے کو یعنی فربہی کو پسند کریں گے ۔"

تشریح :
" قرن " عہد زمانہ کو کہتے ہیں ، جس کی مقدار بعض حضرات نے چالیس سال ، بعض نے اسی سال اور بعض نے سو سال مقرر کی ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ " قرن " کا اطلاق ماہ وسال کے تعین کے اعتبار سے محدود عہد زمانہ پر نہیں ہوتا بلکہ ہو وہ عہد یا زمانہ " قرن " کہلاتا ہے جو تقریبا یکساں عمر رکھنے والے لوگوں پر مشتمل ہوگویا " قرن" جو لفظ " اقتران " سے ماخوذ ہے ایسی مقدار ہے جس میں اس زمانہ کے لوگ اپنی عمروں اور احوال کے اعتبار سے ایک دوسرے کے نزدیک ہوتے ہیں پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قرن سے مراد صحابہ کا قرن ہے ۔ اس قرن کی ابتدازمانہ رسالت سے ہوتی ہے اور اس کا آخر وہ زمانہ ہے جب تک کہ ایک صحابی بھی دنیا میں باقی رہا یعنی ١٢٠ھ تک دوسرا قرن کہ تابعین کا قرن ہے ١٠٠ھ سے ١٧٠ھ تک کے زمانہ پر مشتمل ہے اور تیسرا قرن کہ جو اتباع تابعین کا قرن ہے۔ تابعین کے قرن کے بعد سے شروع ہو کر تقریبا ٢٢٠ھ تک کے زمانہ پر مشتمل ہے اس قرن کے بعد اس مخصوص خیروبرکت کا سلسلہ ختم ہوگیا جو قرن اول (یعنی زمانہ رسالت اور قرن صحابہ ) اور اس سے ملے ہوئے دونوں قرنوں کو زبانی فرق کی نسبت سے کم وبیش حاصل رہی پھر تو بدعتوں کا ظہور شروع ہوگیا دین کے نام پرعجیب وغریب چیزیں پیدا ہونے لگیں ، فلاسفہ اور نام نہاد عقلاء نے سر اٹھائے ، معتزلہ کا جنم ہوا اور انہوں نے دین کو مسخ کرنے کا بیڑہ اٹھایا ، قرآن کو مخلوق کہنے کا فتنہ اٹھا ، جس نے اہل علم کو زبردست آزمائش وامتحان سے دوچار کیا لوگوں کی دینی زندگی کو گھن لگنے لگا ، نت نئے افکار وخیالات جنم لینے لگے ، اختلاف ونزاعات پھیلنے لگے ، آخرت کا خوف کم ہوا اور دنیا کی طرف رجحان بڑھنے لگا کہ جس کی خبرمخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں بیان فرمائی ۔"
" جو خود بخود گواہی دینگے اور کوئی ان کی گواہی نہ چاہے گا " حدیث کے ان الفاظ سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ بغیر طلب گواہی دینا ایک بری حرکت ہے جب کہ ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ " گواہوں میں بہتر وہ گواہ ہے جو گواہی دے اس سے پہلے کہ اس سے گواہی کی درخواست کی جائے " بظاہر ان دونوں حدیثوں میں تعارض ہے لیکن درحقیقت ان کے درمیان کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ بغیر طلب گواہی دینے کی برائی ظاہر والی حدیث کا تعلق اس شخص سے ہے ، جس کے بارے میں معلوم ہو کہ وہ فلاں واقعہ یا معاملہ کا گواہ ہے لیکن اس کے باوجود صاحب معاملہ (مثلا مدعی ) نہ تو اس سے گواہی دینے کی درخواست کرتا ہے اور نہ اس کو عدالت میں بطور گواہ پیش کرنا چاہتا ہے، ایسی صورت میں اگر وہ شخص از خود (بغیرطلب) گواہی دیتا ہے تو ظاہر ہے کہ اس کی گواہی کے کوئی معنی کے کوئی معنی تو ہوگے نہیں البتہ یہ ضرور ثابت ہوگا کہ وہ اس گواہی کے پردہ میں کوئی فاسد غرض رکھتا ہے ، اس کے برخلاف اگر یہ صورت ہو کہ ایک شخص کسی واقعہ یا معاملہ کا گواہ ہے لیکن اس کا گواہ ہونا صاحب معاملہ کو معلوم نہیں ، وہ دیکھ رہا ہے کہ اگر میں نے گواہی نہ دی تو ایک مسلمان بھائی کا حق ڈوب جائے گا یا اس کو بلاوجہ کوئی مالی نقصان اٹھاناپڑے گا ، اس جذبہ خیر کے ساتھ وہ صاحب معاملہ کو بتاتا ہے کہ میں اس واقعہ یا معاملہ کا گواہ ہوں اور اگر تم چاہو تو تمہاری طرف سے عدالت میں پیش ہو کر گواہی دے سکتا ہوں ، بغیر طلب گواہی دینے والا ایسا شخص یقینا قابل تعریف ہوگا اور کہا جائے گا کہ دوسری حدیث (جس میں بغیرطلب گواہی دینے والے کو بہترین گواہ فرمایا گیا ہے ) ایسے شخص کو کے حق میں ہے۔ یا یہ کہ بغیر طلب گواہی دینے کی اچھائی بیان کرنے والی حدیث دراصل اس بات کو مبالغہ کے طور پر یعنی زیادہ سے زیادہ شدت اور تاکید کے ساتھ بیان کرنے کے لئے ہے کہ جو شخص کسی واقعہ یا معاملہ کا سچا گواہ ہو اس کو چاہئے کہ گواہی دینے سے اعراض نہ کرے اور جب اس سے کوئی گواہی طلب کی جائے تو دیر نہ کرے فورا حاضر ہو اور گواہی نہ چھپائے ، اسی طرح یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ بغیر طلب کے گواہی دینے کی برائی ظاہر کرنے والی حدیث اس شخص کے حق میں ہے جو گواہ بننے کا اہل نہ ہو یا اس شخص پر محمول ہے جو جھوٹی گواہی دے بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ بغیر طلب گواہی دینے کی برائی بیان کرنے والی اس حدیث کا تعلق حقوق العباد سے متعلق گواہی دینے سے ہے اور اچھائی بیان کرنے والی حدیث کا محمول حقوق اللہ سے متعلق گواہی دینا ہے لیکن یہ اس صورت میں ہے جب کہ گواہی کو چھپانے میں مصلحت نہ ہو اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ اس حدیث میں " شہادت " سے مراد سوگند (قسم ) ہے اس صورت میں حدیث کے ان الفاظ کا ترجمہ یہ ہوگا : ان میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جو جھوٹی قسم کھائیں گے اس سے پہلے کہ کوئی ان کو قسم دے اور قسم کھلوائے ۔
جو خیانت کریں گے اور ان کی دیانت وامانت پراعتماد نہیں کیا جائے گا " کا مطلب یہ ہے کہ خیانت وبددیانتی میں وہ اس قدر جری اور مشہور ہوجائیں گے کہ لوگ ان کو امانت دار اور بادیانت ماننا چھوڑ دیں گے اور ان کو امانت کے وصف سے خالی سمجھا جائے گا ۔ہاں اگر کسی سے کبھی کبھار کوئی خیانت سرزد ہوجائے تو اس اعتبار نہیں ۔
" جو نذر مانینگے اور اپنی نذر کو پورا نہیں کریں گے " یعنی نہ صرف یہ کہ نذر پوری نہیں کریں گے بلکہ اس بات کو اہمیت بھی نہیں دینگے کہ نذر مان کر اس کا پورا نہ کرنا کتنی بری بات ہے ۔ حالانکہ نذر پوری کرنا لازم ہے اور اللہ کے جونیک بندے اس پر عمل کرتے ہیں ان کی تعریف قرآن میں بیان کی گئی ہے :
یؤ فون بالنذر ویخافون یوما کان شرہ مستطیرا ۔
وہ (اللہ کے نیک بندے ) نذر پوری کرتے ہیں اور اس (قیامت کے ) دن سے ڈرتے ہیں ۔"
" اور ان میں موٹاپا یعنی فربہی پیدا ہوگی " لفظ " سمن " کے معنی موٹاپے ، کے ہیں جو بہت کھانے پینے اور تنعم وترفہ کے سبب پیدا ہوتا ہے پس یہاں وہ موٹاپا مراد نہیں ہے جو خلقی اور طبعی طور پر ہو۔ بعض حضرات نے لکھا ہے کہ یہاں " فربہی " سے مراد احوال میں فربہی ہے یعنی فخر وشیخی کی راہ سے اپنے تئیں مالدار اور خوشحال ظاہر کریں گے اور عزت وشرف کی ان باتوں کا دعوی کریں گے جو سرے سے ان میں نہیں ہوں گی اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ " فربہی " سے مراد مال ودولت جمع کرنا اور تن پروری میں مشغول رہنا ہے ۔ تورپشتی نے لکھا ہے " ان میں فربہی پیدا ہوگی " کے الفاظ دراصل اس بات سے کنایہ ہین کہ دینی معاملات اور احکام شریعت کی بجاآوری میں غفلت و کوتاہی کا شکار ہوں گے اور اوامرونواہی کو ملحوظ رکھنے کا اہتمام نہیں کریں گے جو دین وشریعت کا اصل تقاضاہیں ۔ اس بات کو " فربہی " سے تعبیر کرنے کی وجہ مناسبت یہ ہے کہ عام طور پر موٹے لوگ سست وکاہل ہوتے ہیں ، محنت ومشقت سے جی چراتے ہیں نفس کو ریاضت میں ڈالنے سے کتراتے ہیں ۔ اور ان کا زیادہ تراہتمام نفس کی لذت کو شی ، تن پروری اور راحت وآرام کے ساتھ اپنے بستروں پر پڑے رہنے تک محدود رہتا ہے ۔شرح مسلم میں لکھا ہے کہ علماء نے وضاحت کی ہے کہ وہ فربہی مذموم ہے ، جو (عیش وتنعم کے ذریعہ ) قصدا پیدا کی جائے ۔خلقی وطبعی فربہی نہ مذموم ہے نہ اس پر اس طرح کی روایتوں کا اطلاق ہوتا ہے ! اس وضاحت سے اس روایت کے معنی بھی صاف ہوجاتے ہیں جس میں فرمایا گیا ہے :
ان اللہ یبغض الحبر السمین۔
" اللہ تعالیٰ فربہ عالم کو سخت ناپسند کرتا ہے ۔"

یہ حدیث شیئر کریں