مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ حضرت ابوبکر کے مناقب وفضائل کا بیان ۔ حدیث 625

حضرت ابوبکر کے مناقب وفضائل کا بیان

راوی:

عن أبي سعيد الخدري عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " إن من أمن الناس علي في صحبته وماله أبو بكر – وعند البخاري أبا بكر – ولو كنت متخذا خليلا لاتخذت أبا بكر خليلا ولكن أخوة الإسلام ومودته لا تبقين في المسجد خوخة إلا خوخة أبي بكر " . وفي رواية : " لو كنت متخذا خليلا غير ربي لاتخذت أبا بكر خليلا " . متفق عليه

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انسانوں میں سب سے زیادہ جس شخص نے میرا ساتھ دیا اور میری خدمت میں اور میری خوشنودی میں اپنا وقت اور اپنا مال سب سے زیادہ لگایا وہ ابوبکر یا بخاری کی روایت کے مطابق ابا بکر ہیں ۔ اگر کسی شخص کو اپنا خلیل یعنی سچا دوست بناتا تو یقینا ابوبکر کو ایسا دوست بناتا تاہم اسلامی اخوت ومحبت اپنی جگہ (بلندتر) ہے مسجد نبوی میں ابوبکر کے گھر کی کھڑکی یا روشندان کے علاوہ اور کوئی کھڑکی یا روشندان باقی نہ رکھا جائے " اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ) اگر میں اللہ کے سوا کسی کو اپنا خلیل بناتا تو یقینا ابوبکر ہی کو خلیل بناتا ۔" (بخاری ومسلم )

تشریح :
وہ ابوبکر ہیں " مطلب یہ کہ جس لگن اور تندہی کے ساتھ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میری خدمت گزاری کی اور جس ایثار واخلاص کے ساتھ میری ذات پر یا میری رضا وخوشنودی کے لئے دین کی راہ میں اپنا مال بے دریغ خرچ کیا وہ ان کا ایسا امتیازی وصف ہے جو میرے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور میری پوری امت میں ان کو سب سے بلند وبرتر مقام عطا کرتا ہے " خلیل " کو اگر خلۃ سے مشتق مانا جائے تو اس کے معنی سچے اور جانی دوست کے ہوں گے ۔خلۃ کا لفظ دراصل " سرایت کر جانے والی دوستی اور محبت " کا مفہوم رکھتا ہے یعنی وہ سچی محبت جو محب کے دل کے اندر اس طرح سرایت کر جائے کہ محبوب کو محب کے ظاہر تو ظاہر باطن یعنی جذبات خیالات اور احساسات تک پر حکمران اور اس کا محرم اسرار بنا دینے کا تقاضا کرے ۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ اگر میرے لئے روا ہوتا کہ میں مخلوق میں سے کسی کو اس صفت کے ساتھ اپنا سچا جانی دوست بناؤں کہ اس کی محبت میرے دل
کے اندر تک سرایت کر جائے اور میرا محرم اسرار بن جائے تو یقینا میں ابوبکر کو اپنا اسی طرح کا دوست بناتا کیونکہ وہ دوستی کی اس صفت کی استعداد اور اہلیت رکھتے ہیں لیکن اس درجہ وصف کی محبت کا میرا تعلق صرف اللہ کے ساتھ ہے ۔ کہ اسی کی محبت میرے ظاہر پر بھی حکمران ہے اور میرے باطن پر بھی اور وہی میرا محرم اسرار ہے ہاں ظاہر دل کی محبت کا میرا جو تعلق تمام مسلمانوں کے ساتھ ہے اس میں ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقام یقینا سب سے اونچا ہے ۔
یا یہ کہ " خلیل " دراصل خلۃ سے مشتق ہے جس کے معنی " احتیاج " کے ہیں اس صورت میں ارشاد گرامی کا حاصل یہ ہوگا کہ : اگر میں کسی کو اپنا ایسا دوست بناتا کہ جس کی طرف میں اپنی ضرورتوں اور حاجتوں کے وقت رجوع کرتا اور اپنے معاملات ومہمات میں اس پر اعتماد واعتبار کروں تویقینا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایسا دوست بناتا لیکن ایسے تمام امور ومعاملات میں میرا واحد رجوع اللہ کی طرف ہے اور تمام احوال ومہمات میں میرا واحد سہارا اور ملجا اسی کی ذات ہے ۔ہاں اسلامی اخوت ومحبت کا جو میرا ظاہری وقلبی تعلق پوری امت کے ساتھ ہے ۔ اس میں ابوبکر کا مقام یقینا سب سے بلند ہے۔ یہ دوسرے معنی اگرچہ سیاق حدیث سے زیادہ قربت ومناسبت رکھتے ہیں لیکن محدثین نے پہلے ہی معنی کو اوجہواولی قرار دیا ہے ۔
" ابوبکر کے گھر کی کھڑکی یا روشن دان کے علاوہ " حدیث میں یہاں خوخۃ کا لفظ ہے جس کے معنی " روشن دان " کے ہیں۔ یعنی (سوراخ ) جو گھر یا کمرہ کی روشنی کے لئے دیوار کھولا جاتا ہے ۔ اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ معنی دریچہ یعنی کھڑکی کے ہیں ۔
ابتدا میں مسجد نبوی سے ملے ہوئے جو مکان تھے ان کی کھڑکیاں مسجد شریف کی جانب کھلی ہوئی تھیں جن کے ذریعہ مسجد آتے جاتے تھے ، یہ ان مکانوں میں مسجد شریف کی جانب ایسے روشن دان کھلے ہوئے تھے ۔ جن کے ذریعہ مسجد کا اندرونی حصہ نظر آتا تھا اور ان مکانوں کے مکین اپنے انہی روشن دانوں کے ذریعہ دیکھ لیا کرتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں یا نہیں ۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض وفات میں جو آخری خطبہ ارشاد فرمایا اس میں یہ حکم دیا کہ مسجد کی جانب گھروں کی کھڑکیاں یا روشن دان بند کر دئیے جائیں صرف ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر کی کھڑکی یا روشن دان کھلا رہے ۔ اس حکم کے ذریعہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت اور ان کی تکریم کا اظہار تو مقصود تھا ہی لیکن اصل میں یہ اس بات سے کنایہ بھی تھا کہ میرے بعد امت کی سر براہی وقیادت اور امامت کبریٰ یعنی خلافت کے لئے ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو منتخب کیا جائے اور اس مسئلہ میں بحث وگفتگو اور اختلاف و نزاع کا دروازہ کسی طرف سے نہ کھولا جائے منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم سن کر جب کچھ لوگوں نے کلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بات میں نے اپنی طرف سے نہیں کہی ہے ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے کہی ہے۔ اور ایک روایت میں آیا ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (یہ حکم سن کر ) درخواست کی کہ مجھے اپنی دیوار میں ایک روشن دان کھلا رکھنے کی اجازت عطا فرمائی جائے تاکہ اس کے ذریعہ مجھے مسجد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کا علم ہوجایا کرے تو آپ نے فرمایا : نہیں سوئی کے ناکہ کے برابر سوراخ کھلا نہ رکھاجائے ۔
حضرت ابوبکر اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے بارے میں روایتوں کا اختلاف :
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے صحیح بخاری کی شرح میں لکھا ہے کہ متعدد طرق سے ایسی حدیثیں منقول ہیں جو بظاہر اس حدیث کے مخالف ومعارض نظر آتی ہیں جس میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں یہ حکم ہے کہ مسجد نبوی کی جانب ان کے گھر کی کھڑکی یا روشن دان کے علاوہ اور کوئی کھڑکی یا روشن دان باقی نہ رکھا جائے ۔ ان میں ایک حدیث تو وہ ہے جو حضرت سعد ابن وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ " رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے گھروں کے ان دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا جو مسجد کے جانب تھے لیکن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے گھر کے دروازے کو کھلا رہنے دیا " اس حدیث کو احمد اور نسائی نے نقل کیا ہے اور اس کی اسناد کے قوی ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے ۔ نیز طبرانی نے اوسط میں ثقہ رایوں کے حوالے سے یہ روایت نقل کیا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جمع ہو کر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے اور صحابہ کے دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا لیکن علی کرم اللہ وجہہ کے دروزے کو کھلا رہنے دیا ہے ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دروازے نہ میں نے بند کروائے ہیں نہ کھلا رہنے دیا ہے بلکہ اللہ نے بند کرائے ہیں اور کھلا رہنے دیا ہے درحقیقت اللہ کی طرف سے مجھے حکم ملا ہے کہ علی کے دروازے کے علاوہ سب کے دروازے بند کرادوں ، اسی طرح کی روایت احمد اور نسائی نے حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمر سے نقل کی ہے ۔ ابن حجر کہتے ہیں کہ ان تین سے ہر اکی حدث قابل حجت اور لائق استناد ہے خصوصا اس صورت میں کہ ان میں سے بعض حدیث کو بعض حدیث سے مزید قوت ملی ہوئی ہے ۔ ابن حجر نے یہ بھی لکھا ہے کہ جو حدیث حضرت علی کی شان میں وارد ہوتی ہے ، اس کو ابن جوزی نے موضوع (گڑھی ہوئی ) قرار دیا ہے ، اور اس کے بعض طرق میں اس بناء پر کلام کیا ہے کہ یہ حدیث ان صحیح احادیث کے معارض ہے ۔ جو حضرت ابوبکر کی شان میں منقول ہیں اور کہا ہے کہ روافض نے حضرت ابوبکر کی شان میں منقول ہے احادیث کے مقابلہ پر حدیث وضع کی ہے لیکن ابن حجر نے ابن جوزی کی اس بات کو تسلیم نہیں کیا ہے اور کہا ہے کہ محض اس مفروضہ کی بنا پر کہ یہ حدیث حضرت ابوبکر سے متعلق حدیث کے معارض ہے ۔ اس کو موضوع قرار دینا مناسب نہیں ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے متعلق حدیث ایسے طرق کثیرہ سے منقول ہے جن میں سے بعض طرق حد صحت کو پہنچے ہوئے ہیں اور بعض مرتبہ حسن کو ، دراصل ابن حجر بنیادی طور پر اس بات کو نہیں مانتے کہ ان دونوں حدیثوں کے مابین کوئی تعارض وتضاد ہے ۔ انہوں نے واضح طور پر لکھا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے متعلق اس حدیث اور حضرت ابوبکر کی شان میں منقول حدیث کے درمیان کسی طرح کا معارضہ نہیں ہے اور وجہ توافق انہوں نے یہ لکھی ہے کہ دوسرے صحابہ کے دروازوں کو بند کرنے کا حکم اور حضرت علی کے دروازے کے کھلا رہنے اجازت اس ابتدائی زمانہ کا واقعہ ہے جب مسجد نبوی نئی نئی بنی تھی ، حضرت علی کا مکان مسجد سے ملحق تھا اور اس مکان کا دروازہ مسجد کی طرف اس طرح تھا کہ حضرت علی مسجد میں سے گزر کر اپنے مکان میں آتے جاتے تھے ۔ اور بطرق صحت منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کے سامنے فرمایا تھا ، اس مسجد میں کوئی جنبی (ناپاکی کی حالت میں کوئی شخص ) نہ آئے البتہ مجھے اور تمہیں اس مسجد میں سے گزر کر اپنے گھر آنے جانے کی اجازت ہے ۔ رہی اس حدیث کی بات جس میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ اور گھروں کی کھڑکیاں اور روشندان بند کرانے کا حکم منقول ہے، تو یہ ارشاد گرامی اس آخری زمانے کا ہے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مرض وفات میں تھے اور انتقال سے دو تین دن پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم صادر فرمایا تھا اس بات کی اصل وہ روایت ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کے علاوہ اور سب دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا تو حضرت حمزہ ابن عبد المطلب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، دراصل اس وقت حضرت حمزہ آشوب چشم میں مبتلا تھے اور ان کی آنکھوں میں پانی بہا کرتا تھا اور اسی بناء پر ان کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ حکم کی تعمیل میں کچھ توقف ہوگیا تھا ، انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ نے اپنے چچا کو (یعنی مجھے ) توباہر کردیا اور چچا کے بیٹے (یعنی ابن ابوطالب ابن عبد المطلب ) کو اندر رکھا ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان کی یہ بات سن کر ) فرمایا : چچا جان! حقیقت یہ ہے کہ اس معاملہ میں میرا اختیار نہیں ہے ، میں نے وہی کیا ہے ، جو مجھے حکم دیا گیا ہے ۔ پس اس واقعہ میں حضرت حمزہ کے ذکر سے ثابت ہوا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے متعلق مذکورہ حدیث بالکل ابتدائی زمانہ کی ہے کیونکہ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ غزوہ احد میں شہید ہوئے تھے جو ٣ھ کا واقعہ ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں