مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ حضرت ابوبکر کے مناقب وفضائل کا بیان ۔ حدیث 637

عتیق نام کا سبب

راوی:

وعن عائشة أن أبا بكر دخل على رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال : " أنت عتيق الله من النار " . فيومئذ سمي عتيقا . رواه الترمذي

اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے اور روایت ہے : (ایک دن ) حضرت ابوبکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا " تم دوزخ کی آگ سے اللہ کے آزادہ کردہ ہو " اسی دن سے ان کا ایک نام " عتیق " پڑ گیا ۔" (ترمذی )

تشریح :
" عتیق " کے معنی " بری " اور " آزادہ" کے ہیں ۔ حضرت ابوبکر کا نام " عتیق" بھی مشہور ہے اور اس نام کی وجہ تسمیہ یہ حدیث بیان کر رہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو عتیق اللہ من النار فرمایا تھاہ ۔ بعض حضرات نے اس نام کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی ہے کہ " عتیق " چونکہ حسن وجمال ، شرافت ونجابت اور صاحب خیر کے معنی میں بھی آتا ہے اور یہ تمام خوبیاں حضرت ابوبکر کی ذات میں موجود تھیں اس لئے ان کو" عتیق " کہا جاتا ہے لیکن خود حدیث نے چونکہ اس نام کی وجہ تسمیہ کی صراحت کردی ہے کہ " عتیق " سے مراد " دوزخ کی آگ سے آزاد شخص " ہے ۔ اس لئے کوئی دوسری وجہ تسمیہ بیان کرنا معتبر نہیں ہوگا ایک اور روایت میں بھی آیا ہے :
قال صلی اللہ علیہ وسلم من اراد ان ینظر بنظر الی عتیق من النار فلینظر الی ابی بکر ۔"
" آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص دوزخ کی آگ سے بری اور آزاد شخص کے دیدار کی تمنا رکھتا ہو وہ ابوبکر دیکھ لے ۔"

یہ حدیث شیئر کریں