مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ حضرت عمر کے مناقب وفضائل کا بیان ۔ حدیث 657

جلال فاروقی

راوی:

وعن عائشة قالت : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم جالسا فسمعنا لغطا وصوت صبيان . فقام رسول الله صلى الله عليه و سلم فإذا حبشية تزفن والصبيان حولها فقال : " يا عائشة تعالي فانظري " فجئت فوضعت لحيي على منكب رسول الله صلى الله عليه و سلم فجعلت أنظر إليها ما بين المنكب إلى رأسه . فقال لي : " أما شبعت ؟ أما شبعت ؟ " فجعلت أقول : لا لأنظر منزلتي عنده إذ طلع عمر قالت فارفض الناس عنها . قالت فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إني لأنظر إلى شياطين الإنس والجن قد فروا من عمر " قالت : فرجعت . رواه الترمذي وقال : هذا حديث حسن صحيح غريب

اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ( ایک دن ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( میرے پاس ) بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک پر شور اواز ہمارے کانوں میں آئی ، پھر ہم نے بچوں کا شور وغل سنا ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم (یہ جاننے کیلئے کہ کیسا شوروغل ہے ) کھڑے ہوگئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا (باہر ) ایک حبشی عورت اچھل کود رہی ہے اور اس کے چاروں طرف بچے کھڑے ہوئے (تماشہ دیکھ رہے) ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مجھ کو مخاطب کرکے ) فرمایا کہ : عائشہ ! آؤ یہ تماشہ تم بھی دیکھو ۔چنانچہ میں اٹھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑی ہو گئی اور اپنا گال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے پر رکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے اور سر کے درمیان سے اس عورت کا تماشہ دیکھنے لگی ، تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے پوچھتے : کیا تمہارا جی نہیں بھرا ، کیا ابھی تمہارا جی نہیں بھرا ؟ اور میں جواب دیتی نہیں ابھی میرا جی نہیں بھرا ؟ دراصل میں یہ معلوم کرنا چاہتی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں میرا کیا مقام ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے کتنی زیادہ محبت کرتے ہیں ، پھر اچانک عمر نمودار ہوئے اور پھر وہ لوگ جو اس عورت کا تماشہ دیکھ رہے تھے (محض ان کی ہیبت سے یا اس ڈر سے کہ عمر اس تماش بینی کو پسند نہیں کریں گے ، ان کو دیکھتے ہی ) ادھر ادھر منتشر ہوگئے ۔ یہ دیکھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں دیکھ رہا ہوں کہ انسانوں اور جنوں کے شیطان عمر کے خوف سے (کس طرح ) بھاگ رہے ہیں " حضرت عائشہ کہتی ہیں : اس کے بعد میں بھی وہاں سے ہٹ گئی ، اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے ۔

تشریح :
دراصل میں معلوم کرنا چاہتی تھی " یعنی میرے اس جواب کا یہ مطلب نہیں تھا کہ واقعۃً میرا جی نہیں بھرا تھا اور اس تماش بینی کا مجھے کچھ زیادہ شوق تھا بلکہ میں تو صرف یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مجھ سے کتنا تعلق ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں میری چاہت اور محبوبیت کا کتنا بلند مقام ہے ۔
" انسانوں اور جنوں کے شیطان " سے مراد وہ بچے تھے جو اس حبشی عورت کی اچھل کود کا تماشہ دیکھ رہے تھے اور ان کو ان الفاظ سے تعبیر کرنا ایک تو انہی بچوں کی شرارتوں اور شوروغل کے اعتبار سے تھا جیسا کہ عام طور پر شور وغل مچاتے ہوئے بچوں کو کہہ دیتے ہیں کہ " کیسے شیطان بچے ہیں جو اتنا شور وشغب کررہے ہیں " اور دوسرے اس عورت کی کرتب بازی اور تماشہ آرائی کی اس ظاہری صورت کے اعتبار سے جو لہو ولعب " کی صورت سے مشابہ تھی ۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ حقیقت کے اعتبار سے بھی وہ سب کچھ " لہو ولعب " ہی کے حکم میں تھا اگر ایسا ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود کیوں دیکھتے اور حضرت عائشہ کو کیوں دکھاتے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ دراصل وہ عورت نیزہ وغیرہ کے ذریعہ مشاقی دکھا رہی تھی جو جہاد کے لئے کار آمد چیز تھی اور اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وہ مشاقی خود بھی دیکھی اور حضرت عائشہ کو بھی دکھلائی ، لیکن اس مشاقی میں مقصدیت اسی وقت تک رہی جب تک اس کا مظاہرہ ضرورت کے تحت ہوتا رہا اور وہ ضرورت ایک محدود وقت میں پوری ہوجاتی تھی ، لیکن عین اس وقت جب کہ وہ مشاقی ،ضرورت اور وقت ازحد سے متجاوز ہو کر لہو ولعب اور شیطانی کام کے دائرہ میں داخل ہورہی تھی ، حضرت عمر وہاں آگئے اور شیطان کو اپنا داؤ چلنے کا موقعہ نہ مل سکا پس حضرت عمر کے آنے سے پہلے وہ مشاقی ، حد جواز میں تھی جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اور حضرت عائشہ نے بھی دیکھا اور اس سے پہلے کہ شیطانی اثرات اپنا کام کرتے اور اس عورت کے اردگرد موجود بچے اور لوگ ان اثرات کا شکار ہوتے حضرت عمر کی پر ُ جلال آمد نے ان سب شیطانوں کو بھاگنے پر مجبور کردیابہر حال توجیہہ کچھ بھی کی جائے ، ایک بات جو حدیث سے واضح طور پر ثابت ہے وہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر " صفت جمال " کا غلبہ تھا جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش اخلاقی ، خوش طبعی ، اور مروت وبردباری کودرجہ کمال تک پہنچا دیا تھا جبکہ حضرت عمر پر صفت جلال کا غلبہ تھا جس نے ان کی شخصیت کو اتنا رعب اور اتنی پرہیبت بنا دیا تھا ۔ کہ ان کہ سامنے برائی اور کراہت کا شائبہ رکھنے والا بھی کوئی فعل سرزد نہیں ہو سکتا تھا ۔
" یہ حدیث صحیح غریب ہے " کے تحت یہ بات مدنظر رہنی چاہے کہ حبشیوں کے اچھل کود اور مشاقی کے مظاہرہ سے متعلق ایک اور دوسرے طریق سے صحیحین (بخاری ومسلم ) میں بھی منقول ہے جس کا بیان کیا گیا ہے کہ ایک دن کچھ حبشی لوگ مسجد نبوی میں نیزہ بازی کے کرتب کا مظاہرہ دکھا رہے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ کو ان کرتب کا مظاہرہ دکھا رہے تھے کہ حضرت عمر آگئے انہوں نے ان حبشیوں کو اس مظاہرہ بازی سے روکنا چاہا بلکہ ان کی طرف کچھ پتھر اچھالے (تاکہ وہ بھاگ جائیں ) تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عمر ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو آج عید کا دن ہے (یعنی عید کے دن اس طرح کی تھوڑی سی تفریح طبع میں کوئی حرج نہیں ہے ) اوپر کی حدیث میں چونکہ عورت اور تماش بین بچوں کا ذکر ہے اس لئے نہ تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ نے اجنبیوں کو دیکھا اور نہ یہ جواب دینے کی ضرورت ہے کہ اس وقت خود ان کی عمر چھوٹی تھی اور اجنبی مردوں کی طرف دیکھنا ان کے لئے ممنوع نہیں تھا نیز بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ترمذی کی نقل کردہ روایت میں جس واقعہ کا ذکر ہے وہ اس واقعہ کے علاوہ ہے جس کا ذکر بخاری ومسلم کی روایت میں ہوا ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں