مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ حضرت عمر کے مناقب وفضائل کا بیان ۔ حدیث 660

عمر جنت میں بلند ترین مقام پائیں گے

راوی:

وعن أبي سعيد قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " ذاك الرجل أرفع أمتي درجة في الجنة " . قال أبو سعيد : والله ما كنا نرى ذلك الرجل إلا عمر بن الخطاب حتى مضى لسبيله . رواه ابن ماجه

اور حضرت ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " وہ شخص میری امت میں جنت کا بلند ترمقام ومرتبہ رکھنے والا ہے " ابوسعید کا بیان ہے کہ " اس شخص (جس کا ذکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں فرمایا ) کے بارے میں واللہ ہمارا خیال اس کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا کہ اس سے عمر ابن خطاب کی ذات مراد ہے اور حضرت عمر جب تک اس دنیا میں رہے ہم اپنے خیال پر قائم رہے ۔" ( ابن ماجہ )

تشریح :
وہ شخص " یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مبہم کہی اور تعیین نہیں فرمائی کہ " وہ شخص " کون ہے اور اس ابہام سے مقصود یہ تھا کہ امت کا ہر شخص طاعات وعبادات سے زیادہ جدوجہد اور محنت کے ساتھ برابر لگا رہے اور اخلاق وکمالات سے متصف ہو کر اس کا استحقاق پیدا کرے یا یہ ہوسکتا ہے کہ مجلس نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں کسی ایسے شخص کا آیا ہو جو مذکورہ اوصاف سے متصف تھا اور اس ضمن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ فرمایا ہو کہ جو شخص بھی ان اوصاف کا حامل ہوگا اس کا جنت میں بلند تردرجہ ملے گا ۔"
" اور حضرت عمر جب تک اب دنیا میں رہے " یہ الفاظ اس شک کے دفعیہ کے لئے ہیں کہ شائد وقتی طور حضرت عمر کی طرف لوگوں کا خیال چلا گیا ہو اور پھر بعد میں وہ خیال بدل گیا ہو ۔
یہاں یہ اشکال پیدا ہوسکتا ہے کہ حضرت ابوسعید کے الفاظ سے یہ لازم آتا ہے کہ حضرت عمر حضرت ابوبکر سے افضل تھے ۔ حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں تھا ؟ اس کا جواب الفاظ حدیث کی مذکورہ بالا وضاحت سے مل جاتا ہے یعنی یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد میں مبہم اشارہ کا مقصد اس طرف متوجہ کرنا تھا کہ امت کا ہر فرد شریعت کی اطاعت و فرمانبرداری اور اچھے کاموں میں لگن ، محنت اور اخلاص کے ساتھ زیادہ سے زیادہ جدوجہد اور کوشش کرے تاکہ اس بلند ترمقام کو پہنچے ۔ وہ بلند ترمقام اسی شخص کو نصیب ہوسکتا ہے ۔ جو طاعات وعبادت میں کوشاں رہے ، اخلاص کے ساتھ متصف ہو ، دین میں خوب غور کے ذریعہ اجتہاد کرے اور اچھے کاموں میں لگا رہے ، پس جن لوگوں نے یہ خوبیاں جتنی زیادہ ، جتنی بھر پور اور جتنی موثر حضرت عمر کی ذات تھی نہ کہ کسی اور کی ۔ اگر اخفاء لیلۃ القدر کا مسئلہ ذہن میں رہے تو پھر یہ بات آسانی سے سمجھ آسکتی ہے کہ اس روایت میں حضرت عمر کے ذکر سے حضرت ابوبکر پر ان کی فضیلت کا مفہوم لازم نہیں آتا ۔ حاصل کلام یہ کہ " اس شخص " سے حضرت عمر کا مراد ہونا ایک ظنی بات ہے اور وہ بھی بعض حضرات کے نزدیک نہ کوئی یقینی بات ہے لہٰذا اس روایت سے یہ استدلال کرنا صحیح نہیں ہوگا کہ حضرت عمر حضرت ابوبکر افضل تھے ، جب کہ جمہور علماء کا اتفاق حضرت ابوبکر کی فضیلت پر ثابت بھی ہے اور اہل سنت وجماعت کا متفقہ اعتقاد بھی اسی پر ہے ۔ہاں اگر یہ کہا جائے کہ حضرت ابوسعید نے حضرت عمر کے بارے میں یہ بات حضرت ابوبکر کی وفات کے بعد حضرت عمر کے زمانے کو سامنے رکھ کر کہی تھی کہ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا مصداق حضرت عمر سے بڑا اور کسی کو نہیں سمجھا جاتا تھا تو پھر اصل حدیث کے بارے میں کوئی اشکال ہی پیدا نہیں ہوگا کیونکہ اپنے زمانہ خلافت میں حضرت عمر بلاشبہ سب سے افضل تھے ۔

یہ حدیث شیئر کریں