مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے مناقب کا بیان ۔ حدیث 666

ابو بکر وعمر ایمان ویقین کے بلند ترین مقام پر فائز تھے

راوی:

عن أبي هريرة عن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " بينا رجل يسوق بقرة إذ أعيي فركبها فقالت : إنا لم نخلق لهذا إنما خلقنا لحراثة الأرض . فقال الناس : سبحان الله بقرة تكلم " . فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " فإني أومن بهذا أنا وأبو بكر وعمر " . وما هما ثم وقال : " بينما رجل في غنم له إذ عدا الذئب فذهب على شاة منها فأخذها فأدركها صاحبها فاستنقذها فقال له الذئب : فمن لها يوم السبع يوم لا راعي لها غيري ؟ فقال الناس : سبحان الله ذئب يتكلم ؟ " . قال : أومن به أنا وأبو بكر وعمر " وما هما ثم . متفق عليه

حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایک شخص ایک گائے کو ہانکتا ہوا لے جارہا تھا ، جب وہ (چلتے چلتے ) تھک گیا تو گائے پر سوار ہوگیا ، گائے بولی ، ہماری تخلیق اس کام (یعنی سواری) کے لئے نہیں ہوئی ہے ، ہم تو زراعت وکاشت کاری کے کام میں آنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں لوگوں (یعنی حاضرین مجلس ) نے (یہ سن کر اظہار تعجب کے طور پر ) کہا : سبحان اللہ ، گائے بھی بات کرتی ہم (درآنحالیکہ وہ بے زبان چوپایہ ہے ؟) اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں اس بات پر ایمان لاتا ہوں ، اور ابوبکر وعمر بھی ایمان لاتے ہیں " اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر اس مجلس میں موجود نہیں تھے ، نیز حضرت ابوہریرہ نے بیان کیا کہ ایک شخص اپنی بکریوں کے ریوڑ کے درمیان تھا کہ ناگہاں ایک بھیڑیا آیا اور ریوڑ میں ایک بکری اٹھا لے گیا بکری کے مالک نے بھیڑئیے کا تعاقب کرکے اپنی بکری اس سے چھڑالی بھیڑیا اس سے بولا (اب تو تم نے اپنی بکری مجھ سے چھڑالی ہے لیکن یہ بتاؤ ) سبع کے دن بکریوں کا رکھوالا کون ہوگا ، جب میرے سوا بکریوں کا چرانے والا کوئی نہ ہوگا لوگوں نے (یہ واقعہ سن کر اظہار تعجب کیا اور ) کہا : سبحان اللہ ، بھیڑیا اور بات کرے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں اس پر ایمان لاتا ہوں اور ابوبکر وعمر بھی ایمان لائے اس وقت حضرت ابوبکر اور حضرت عمر میں سے کوئی بھی وہاں موجود نہیں تھا ۔" (بخاری ومسلم )

تشریح :
ہماری تخلیق اس کام کے لئے نہیں ہوئی ہے " اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ گائے پر سواری گانٹھنایا اس پر بوجھ لادنا موزوں نہیں ہے ، چنانچہ علامہ ابن حجر نے لکھا ہے کہ علماء نے حدیث کے ان الفاظ سے استدلال کیا ہے کہ چوپاؤں اور مویشیوں کو ان مقاصد کے علاوہ اور کسی کام میں نہ لانا چاہئے جو عام طور پر ان سے منسوب سمجھے جاتے ہیں اور جن کے لئے ان کا استعمال عادت پر معمول کے تحت ہوتا ہے ، تاہم یہ احتمال بھی ہے کہ اس بات کا منشاء محض اولیت وافضلیت کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ حصر کرنا ، یعنی افضل اور بہتر یہ ہے کہ چوپایہ ومویشی سے وہی کام لیا جائے جس کے لئے اس کی تخلیق ہوئی ہے ۔ اور جس کام میں استعمال ہونا اس کی عادت ومعمول میں شامل ہوچکا ہو ۔ پس جن چوپاؤں کو حلال کرکے گوشت کھایا جاتا ہے ان کے ذبح کرنے پر کوئی اشکال نہیں ہونا چاہئے ، کیونکہ انسانی غذا کے لئے گوشت فراہم کرنا ان چوپایوں کے مقصد تخلیق میں شامل ہے اور ذبح کر کے ان کا گوشت کھانا عادت ومعمول کے مطابق ہے ۔
" میں اس بات پر ایمان لاتا ہوں " یعنی میں اس بات میں اپنا کامل یقین ظاہر کرتا ہوں کہ اللہ کی قدرت اور اس کے حکم سے گائے انسان کی زبان میں بات کرسکتی ہے یا اس بات کو دل سے مانتا ہوں کہ گائے واقعۃً زراعت اور انسانی غذاؤں کی فراہمی کے مقاصد کے لئے پیدا کی گئی ہے نہ کہ سواری اور بار برداری کے لئے ۔
" اور ابوبکر وعمر بھی ایمان لاتے ہیں " صرف انہی دو حضرات کے ذکر کئے جانے میں اس طرف اشارہ تھا کہ مضبوط ایمان واعتقاد اور کامل یقین واعتماد کا خصوصی درجہ کمال انہی کو حاصل ہے ۔ یہاں یہ اشکال نہیں ہونا چاہئے کہ ابوبکر وعمر نہ وہاں موجود ہی تھے نہ انہوں نے اس واقعہ کو دیکھا ، نہ سنا اور نہ اس پر اپنے یقین واعتقاد کا اظہار ہی کیا تو پھر ان کے بارے میں کیونکر فرمایا کہ " ابوبکر وعمر بھی ایمان لائے" دراصل آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اس معنی میں کہی تھی کہ یہ واقعہ یعنی گائے کا بات کرنا ، ایک حقیقت ہے ، جو اگر ابوبکر وعمر کے سامنے آئے تو وہ بھی فورًا اس پر ایمان لے آئیں ۔ اس کی واقعیت میں ان دونوں کو ذرا بھی تردد اور شک نہیں ہوگا ۔
" ابوبکر وعمر اس مجلس میں موجود نہیں تھے " یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے بارے میں مذکورہ الفاظ ارشاد فرمائے تو اس وقت وہ دونوں ہی وہاں موجود نہیں تھے ۔ پس ان کی عدم موجودگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس طرح فرمانا درحقیقت ان دونوں کی قوت ایمانی اور ان کے درجہ کمال کی نہایت اعلی پیرایہ میں تعریف وتوصیف کرنا تھا اس کو وضاحت کے ساتھ یوں کہا جاسکتا ہے کہ ان دونوں حضرات کو ایمان واعتقاد اور کمال تعلق کے ساتھ بارگاہ رسالت میں تقریب اور حضوری کا جو خصوصی مقام حاصل تھا اس کی مدح وستائش کی ایک عام صورت تو یہ تھی کہ دوسروں کے ساتھ یہ دونوں حضرات بھی اس وقت مجلس مبارک میں حاضر ہوتے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مذکورہ واقعہ پر اعتقاد ویقین کے اظہار میں اپنے ساتھ صرف ان دونوں کا ذکر کرکے ایمان ویقین کے تعلق سے ان کی خصوصی حیثیت اور ان کے خصوصی مرتبہ کو ظاہر فرماتے مگر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کی غیر موجودگی میں مذکورہ الفاظ ارشاد فرماکر ان کی خصوصی حیثیت اور ان کے خصوصی مرتبہ کا اظہار فرمایا تو گویا ان کی مدح وستائش کی وہ غیر معمولی صورت رونما ہوئی جس سے ان دونوں کا تمام صحابہ پر فضیلت وبرتری رکھنا بھی معلوم ہوا اور صراحۃً یہ بھی ثابت ہوا کہ یہ دونوں ایمان ویقین کے سب سے بلند درجہ پر ہیں ۔
" سبع کے دن " یہ یوم السبع کا ترجمہ ہے اور سبع " کا لفظ ب کے جزم کے ساتھ بھی نقل ہوا ہے اور پیش کے ساتھ بھی ، نیز " سبع کے دن " کی وضاحت میں مختلف اقوال بیان ہوئے ہیں بعض حضرات نے لکھا ہے کہ " سبع " اور " سباع " کے معنی اچک لینا کے آتے ہیں یعنی کسی چیز کو بے کار ومہمل سمجھ کر چھوڑ دیا جائے اور کوئی اس کو اڑا کر لے جائے ، چنانچہ " سبع " کا لفظ بیکار ومہمل چیز کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے ۔ اس اعتبار سے یوم السبع (ب کے جزم کے ساتھ ) مراد " فتنہ وفساد " ہے یعنی جب لوگوں میں اختلاف وانتشار پھیل جائے گا اور آپس میں جنگ وجدال کرنے لگیں گے تو نہ کسی کو اپنے مویشیوں کا دھیان رہے گا اور نہ اپنی بکریوں کا اس وقت بکریاں اپنے گلہ بانوں کے بغیر ادھر ادھر ماری ماری پھریں گی ، ان کا وارث نہیں ہوگا ، پس بھیڑئیے نے قادر مطلق کے حکم سے انسانوں کی زبان میں چرواہے کو ان مصائب اور فتنوں سے آگاہ کیا جو آنے والے زمانوں میں وقوع پزیر ہونے والے تھے ، بھیڑئیے نے طنز کیا کہ اس وقت دیکھوں گا تم میں کون شخص اپنی بکریوں کی حفاظت ونگہبانی کرتا نظر آئے گا ۔سب لوگ اپنے اپنے جھگڑوں میں مبتلا ہوں گے اور ان کی بکریوں کا میں نگہبان ہوں گا ، مزے سے ان کو چٹ کروں گا ، اور بعض حضرات کا کہنا ہے کہ یوم السبع (ب کے جزم کے ساتھ ) ایک تہوار کو کہتے تھے جو زمانہ جاہلیت میں اہل عرب کے یہاں منایا جاتا تھا ، اس دن ایک خاص میلہ لگتا تھا اور تمام لوگ اس میلہ میں اس طرح آ آکر جمع ہوتے تھے کہ پھر ان کو کسی اور چیز کی کچھ خبر نہیں رہتی تھی ، مویشوں کو یوں ہی کھلا چھوڑ دیتے تھے جو جنگل اور بیابانوں میں مارے مارے پھرتے تھے اور بھڑئیے بڑے اطمینان سے ان کو شکار بنا لیتے تھے ، پس بھیڑئیے نے گویا زمانہ جاہلیت کے اسی تہوار کے دن کی یاد چرواہے کو دلائی کہ اس دن بکریوں کی رکھوالی کون کرتا تھا جو تم آج بڑے نگہبان اور رکھوالے بن کر آئے ہو یا یہ کہ عید کا دن تو اب بھی ہر سال آتا ہے ، اب جب عید کا دن آئے گا اور تم عید کی مصروفیات میں لگے رہو گے تو پھر دیکھوں گا کہ تمہاری تمہاری بکریوں کی حفاظت کون کرتا ہے اور میرے چنگل سے کوئی بکری کیسے چھڑالی جائے گی ۔
سبع (ب کے پیش کے ساتھ ) کے معنی " درندہ " کے آتے ہیں اس صورت میں بھی یوم السبع کا مطلب مذکورہ بالامفہوم میں بیان کیا جاسکتا ہے یعنی یہ کہ جب فتنہ وفساد کا زور ہوگا اور لوگ اپنے اپنے جھگڑوں میں مبتلا ہوں گے یا فتنہ وفساد کے خوف سے مال اسباب چھوڑ کر اپنے گھروں سے بھاگ جائیں گے ۔ توبکریاں اپنے وارث ولی کے بغیر پھریں گی ، اس وقت درندہ یعنی بھیڑیا ہی ان کا نگہبان ہوگا اور مزے سے ان کو چٹ کرے گا ، اس اعتبار سے وہ درندوں کا دن کہلائے گا اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ سبع (ب کے پیش کے ساتھ ) کے معنی بھی " تہوار کا دن " کے آتے ہیں اور مشارق میں لکھا ہے کہ یہ لفظ دراصل یوم السبع (یعنی ب کے بجائے ی کے ساتھ ) ہے جس سے مراد " نقصان کا دن " ہے کیونکہ " سبع " کا لفظ ضیاع (تلف ہوجانے ، بے کار ہوجانے ) کے معنی میں بھی آتا ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں