مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ مناقب کا جامع بیان ۔ حدیث 857

حضرت انس کے حق میں مستجاب دعا

راوی:

وعن أم سليم أنها قالت : يا رسول الله أنس خادمك ادع الله له قال : " اللهم أكثر ماله وولده وبارك فيما أعطيته " قال أنس : فو الله إن مالي لكثير وإن ولدي وولد ولدي ليتعادون على نحو المائة اليوم . متفق عليه

اور حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے (جو حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ ہیں ) روایت ہے کہ انہوں نے (جب اپنے بیٹے انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کی چھوٹی سی عمر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت بابرکت میں پیش کیا تو اس وقت ) عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ انس ہے جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خادم بناکر آپ کی خدمت اقدس میں پیش کر رہی ہوں ، تو (اس کو حصول ایمان اور آپ کی بابرکت صحبت وخدمت کے سبب آخرت کا اجر وانعام تو ملے ہی گا ، رہی دنیاوی خوشحالی وبرکت کی بات تو اس بارے میں ) اس کے لئے دعا فرما دیجئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا فرمائی " خدایا ، اس (انس ) کے مال کو زیادہ کر، اس کی اولاد کو بڑھا اور (اپنی طرف سے ) جو نعمتیں تونے اس کو عطا کی ہیں ان میں برکت دے ، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے تھے کہ اللہ کی قسم (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی دعا کے سبب ) میرا مال نہایت بہتات اور نہایت برکت کے ساتھ ہے ۔ اور میری (بلاواسطہ ) اولاد اور میری اولاد کی اولاد آج شمار میں سے سو کے قریب ہیں ۔ " (بخاری ومسلم )

تشریح :
آج شمار میں سو کے قریب ہیں " حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی بلاواسطہ اور بالواسطہ اولاد کی یہ تعداد تو اس وقت بیان کی تھی جب انہوں نے اس بات کا ذکر کیا تھا ، اس کے بعد ان کی اولاد میں اور بھی اضافہ ہوا ، چنانچہ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وہ روایت نقل کی ہے جو انہوں نے اس دن کے کافی عرصہ بعد بیان کی تھی اور جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے میری اولاد کی اولاد کے علاوہ جو اولاد بلا واسطہ میری صلب سے مجھ کو عطا کی ہے ۔ وہ تعداد میں ایک سو پچیس ہیں ، جن میں دو لڑکیوں کے علاوہ باقی سب لڑکے ہیں اور (میرے مال میں بہتات وبرکت کا یہ عالم ہے کہ ) میرے باغات سال میں دو مرتبہ پھل دیتے ہیں ۔ نیز حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک صاحبزادے نے بیان کیا کہ والد محترم حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صلبی اولاد میں سے جن کو میں نے دفنایا ہے ۔ ان کی تعداد سو کے قریب ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ مال ومنال اور اولاد اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمتیں ہیں بشرطیکہ وہ یاد الہٰی سے غفلت کا موجب اور گناہ ومعصیت کا باعث نہ ہوں ۔ اور امام نووی لکھتے ہیں : یہ (حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اس قدر کثیرالاولاد ہونا اور کثیر المال ہونا ) ہی دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ایک اعجاز ہے ۔ نیز یہ حدیث ان حضرات کے حق میں جاتی ہے جو فقیر ومفلس پر غنی ومالدار کی فضیلت کے قائل ہیں ۔ لیکن دوسرے حضرات کی طرف سے اس کے جواب میں یہ کہا جاتا ہے ۔ کہ اس معاملہ کی خصوصی نوعیت ہے اور وہ یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں دعا فرمائی اور اس دعا کی وجہ سے ان کے مال میں برکت ہوئی، اور جب برکت (الہٰی کا دخل ہوا تو اس مال کا وہ پہلوجاتا رہا جس کو شریعت کی نظر میں " فتنہ " کہا جاتا ہے لہٰذا وہ مال حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں نہ تو تقصیر اور برائی کا باعث بنا اور نہ دنیا سے تعلق رکھنے والی کسی چیز کی دعا مانگے تو اس دعا میں طلب برکت کو بھی شامل کرے یعنی اللہ سے اس چیز کو مانگنے کے ساتھ یہ بھی دعا مانگے کہ اللہ ، اس چیز میں برکت عطا فرما اور مجھ کو اس کے فتنہ و آفات سے محفوظ رکھ ۔
حضرت انس بن مالک بن نضر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ کے باشندہ اور خزرجی ہیں ، ابوحمزہ ان کی کنیت ہے ان کو ان کی والدہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ میں اس وقت پیش کیا تھا جب وہ بارہ سال کے تھے انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ خلافت میں بصرہ کی سکونت اس مقصد سے اختیار کرلی تھی کہ وہاں کے لوگوں کو دین کی تعلیم دیں گے اور بصرہ ہی میں ٩١ھ میں انتقال کیا ، اس وقت ان کی عمر ١٠٣سال تھی بصرہ میں فوت ہونے والے صحابہ میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ آخری صحابی ہیں ۔ ابن عبد البر نے نقل کیا ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹوں کی تعداد سو تھی ، اور یہی قول زیادہ صحیح ہے بعض حضرات نے لکھا ہے کہ ان کی اولاد کی تعداد اسی تھی جن میں اٹھتر بیٹے تھے اور دو بیٹیاں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے جو روایت نقل کی ہے ( اور جس میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد کی تعداد ١٢٥بیان ہوئی ہے ) وہ نہ صرف ان روایتوں کے خلاف پڑتی ہے (کہ جن میں ان کی اولاد کی تعداد ایک سو یا اسی بیان کی گئی ہے ) بلکہ مذکورہ بالا حدیث کے بھی مخالف نظر آتی ہے ، کیونکہ اس حدیث کے الفاظ اس پر دلالت کرتے ہیں کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بلاواسطہ اور بالواسطہ اولاد کی مجموعی تعداد سو یا سو سے کچھ متجاوز تھی نہ کہ یہ تعداد صرف ان کی بلا واسطہ اولاد کی ہے ۔ واللہ اعلم ۔ "

یہ حدیث شیئر کریں