مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ مناقب کا جامع بیان ۔ حدیث 864

انصار کی فضیلت

راوی:

وعن أنس عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " آية الإيمان حب الأنصار وآية النفاق بغض الأنصار " . متفق عليه

اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (یعنی کمال ایمان ) کی نشانی (تمام) انصار سے محبت رکھنا ۔ اور نفاق کی نشانی انصار سے بغض ودشمنی رکھنا ہے ۔ " (بخاری ومسلم )

تشریح :
" انصار " کا لفظ لغوی طور پر " ناصر" یا " نصر" کی جمع ہے اور اصطلاحا اس لفظ کا اطلاق مدینہ کے ان لوگوں پر ہوتا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور جان ومال سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی دراصل مدینہ میں دو قبیلے آباد تھے ۔ ایک کے مورث اعلی کا نام " اوس " اور دوسرے کامورث اعلی کا نام " خزرج " تھا اوس وخزرج 'دونوں بھائی تھے اور آگے چل کر ان دونوں کی نسلوں نے دو زبر دست قبیلوں کی صورت اختیار کرلی ۔ مدینہ میں اسلام اور پیغمبر اسلام کی آمد سے پہلے یہ دونوں قبیلے ایک دوسرے کے خلاف بھیانک مخاصمت ودشمنی رکھتے تھے ۔ کہا جاتا ہے کہ ہجرت نبوی کے وقت تک مسلسل ایک سو بیس سال سے ان دونوں قبیلوں کے درمیان جنگ وعداوت چلی آرہی تھی ، لیکن جوں ہی انہوں نے اسلام وتوحید اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق قائم کیا ان کی باہمی عداوت ومخاصمت ، باہمی محبت وموانست میں بدل گئی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں قبیلوں کو " انصار " کا لقب عطا فرمایا اور اسی لقب کے ذریعہ ان قبیلوں کے لوگ ممتاز ہوئے ۔ ان کے بعد ان کی اولاد ، ان کی نسلوں ، اور ان کے آزاد کردہ غلاموں کے لئے بھی یہ لقب باقی رہا ۔ انصار کے فضائل ومناقب کا کوئی ٹھکانہ نہیں ، اسلام میں بلند تر ، شرف واعزاز ان کو حاصل ہے قرآن کریم میں ان کی تعریف مذکور ہے اور یہ عظیم تر رتبہ ان کو اس بناء پر حاصل ہوا کہ انہوں نے نہایت مخلصانہ طور پر پیغمبر اسلام کو ٹھکانا دیا ۔ جان ومال سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوتی مشن کے نہایت زبردست اور موثر و معاون بنے ۔ اور چونکہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی معاونت کر کے تمام عرب وعجم کے دشمنان دین کی عداوت مول لی ۔ اس لئے ضروری ہوا کہ ان کی محبت کو ایمان کی علامت اور ان کی عداوت کو کفر ونفاق کی علامت ، اسی طرح ان کے تئیں کمال محبت کو کمال ایمان کاموجب اور ان کے تئیں نقصان محبت کونقصان ایمان کا موجب قرار دیا جائے بلکہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر کوئی شخص اس بناء پر ان سے عدوات رکھے کہ وہ اسلام اور پیغمبر اسلام کے معاون ومددگار بنے تو وہ شخص یقینی طور پر حقیقی کافر ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں