مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ مناقب کا جامع بیان ۔ حدیث 867

انصار کی فضیلت

راوی:

وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لولا الهجرة لكنت امرءا من الأنصار ولو سلك الناس واديا وسلكت الأنصار واديا أو شعبا لسلكت وادي الأنصار وشعبها والأنصار شعار والناس دثار إنكم سترون بعدي أثرة فاصبروا حتى تلقوني على الحوض " . رواه البخاري

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصار میں کا ایک آدمی ہوتا ۔ اگر لوگ ایک وادی میں (یعنی حسی یا معنوی راستہ پر ) چلیں اور انصار کسی دوسرے راستہ پر چلیں ۔ یا یہ فرمایا کہ ( اور انصار ) کسی دوسرے پہاڑی درہ میں چلیں تو میں اسی راستہ پر یا اسی پہاڑی درہ میں چلوں جو جماعت انصار کا راستہ ہے ۔ انصار تو شعار کے مانند ہیں اور دوسرے لوگ دثار کے مانند (اے انصار ) ! تم میرے بعد دیکھو گے کہ دوسرے لوگوں کو تم پر بلا استحقاق فضیلت دی جائے گی تو تم صبر کئے رہنا یہاں تک کہ مجھ سے حوض کوثر پر آکر ملو ۔ " (بخاری )

تشریح :
تو میں بھی انصار میں کا ایک آدمی ہوتا " اس سے نسب ولادی (پیدائشی نسب ونسل ) میں تبدیلی کی خواہش یا تمنا کا اظہار مقصود نہیں ہے ۔ کیونکہ اول تونسب ولادی میں تبدیلی حرام ہے دوسرے یہ کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نسب چونکہ دنیا کے تمام نسبوں اور نسلوں سے اعلی واشرف ہے اس لئے اس نسب ونسل کی نسبت چھوڑ کر کسی دوسرے نسب ونسل کی طرف نسبت کی خواہش یا تمنا کے اظہار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ ہاں یہاں نسب بلادی یعنی وطنیت وشہریت کی نسبت ضرور مراد ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ ہجرت کا تعلق اگر دین سے نہ ہوتا اور اس کی طرف منسوب ہونا ضروری نہ ہوتا تو میں اس بات کو پسند کرتا کہ اپنی اصل وطنی وشہری نسبت کو ترک کرکے انصار کے شہر کی طرف اپنے کو منسوب کرتا اور " مہاجر " کہلانے کی بجائے " انصار " کہلاتا ۔ لیکن " ہجرت " چونکہ بجائے خود ایک بہت بڑا دینی شرف ہے اور اس کی طرف منسوب ہونا بڑی فضیلت کی بات ہے اس لئے میں اپنی اس خواہش یا تمنا کی تکمیل نہیں کرسکتا پس اس ارشاد گرامی میں اگرچہ " انصار " کا اکر ام اور ان کی زبر دست عزت افزائی نیز " نصرت " کی طرف منسوب ہونے کی بڑی فضیلت ہے ، لیکن اس میں " ہجرت " کی افضلیت اور رتبہ مہاجرین کی برتری کی طرف بھی ارشاد ہے کیونکہ مہاجرین تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اپنا وطن ودیار ، اپنا گھر بار اپنے اہل وعیال اور اپنے قرابتداروں کو چھوڑ دینے کی بے مثال قربانی دی ۔ جب کہ انصار نے گو اللہ کے دین اور اللہ کے رسول کی مدد ونصرت اور اس راہ میں بے پناہ ایثار کی فضیلت کاملہ حاصل کی لیکن وہ بہرحال ترک وطن ، ترک قبیلہ اور ترک اہل وعیال جیسی عقوبت سے دوچار نہیں ہوئے ۔ لہٰذا نصرت کی فضیلت ہجرت کی بعد کی اور انصار کی فضیلت مہاجرین کے بعد کی ہے اور بعض حضرات نے اس ارشاد گرامی کی مراد یہ بیان کی ہے کہ جو چیز مجھ کو انصار سے ممتاز کرتی ہے وہ ہجرت کی فضیلت ہے ۔ اگر ہجرت کا شرف اور اس کی فضیلت میرے ساتھ نہ ہوتی ۔ تو پھر میں بھی انصار کے ایک فرد کی طرح ہوتا اور رتبہ میں ان کے برابر اور ان کی مثل ہوتا ، اس صورت میں کہا جائے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لئے تو تواضع اور کسر نفی کا پہلو اختیار فرمایا اور انصار کا دل ملانے کے لئے ان کی رفعت ومنزلت ظاہر فرمائی ۔
" یایہ فرمایا کہ " یہاں روای کو شک ہوا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں یا تو " وادیاً " کا لفظ فرمایا تھا یا " شعبا " کا اصل میں " وادی " تو اس قطعہ زمین یا اس راستہ کو کہتے ہیں جو دو پہاڑوں یا دو ٹیلوں کے درمیان ہو جس کو عربی میں فرجہ بھی کہتے ہیں اور فارسی میں " کا واک " اور شعب اس راستہ کو کہتے ہیں جو کسی پہاڑ کے اندر ہو کر گزرتا ہے ۔ حجاز میں چونکہ پہاڑ اور پہاڑیاں بہت ہیں اس لئے وادیاں اور شعب یعنی درے اور گھاٹیاں بھی کثرت سے ہیں ۔ اس زمانہ میں ہوتا یہ تھا کہ کسی قافلہ یا قبیلہ کا سردار جس درے یا گھاٹی میں ہو کر گزرنا چاہتا سارا قافلہ اور سارا قبیلہ اس کے پیچھے پیچھے اسی درے یا گھاٹی میں داخل ہوتا اور پھر وہاں سے گزر کر سب اپنی منزل یا کھلے راستہ پر پہنچ جاتے ۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کبھی ایسا ہو کہ تمام لوگ دو گرہوں میں بٹ کر کسی منزل کی طرف چلیں ، ان میں سے ایک گروہ انصار پر مشتمل ہو اور دوسرا گروہ باقی لوگوں پر ، اور ان دونوں گروہوں کے راستے الگ الگ ہوں تو میں دوسرے گروہ کا راستہ چھوڑ کر اس راستہ پر چلوں گا جو انصار نے اختیار کیا ہوگا ، اس صورت میں کہا جائے گا کہ اس ارشاد گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد انصار کے تئیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کمال تعلق وارتباط اور ان پر آپ کے کمال عنایت وشفقت کا اظہار ہے اس میں دوسرا قول یہ ہے کہ وادی اور شعب کے جو معنی یہاں مراد ہیں وہ " مسلک " اور " رائے " کے ہیں مطلب یہ کہ کسی معاملہ میں لوگوں کے درمیان رائے اور مسلک کے اختلاف کا اظہار ہو تو میں اسی رائے اور مسلک کو اختیار کروں گا ، جوانصار کا اختیار کردہ ہوگا اور انہی کی موافقت کا اظہار کرونگا۔ اس صورت میں یہ کہا جائے گا کہ اس ارشاد گرامی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد انصار کے ساتھ حسن موافقت ومرافقت کا اظہار کرنا ہے کیونکہ انصار نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تئیں حسن وفا اور اچھی خدمت گزاری کا ثبوت دیا ہے ۔ اس سے یہ مراد ہرگز نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کی اتباع اور ان کی طرف احتیاج کا اظہار کیا ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تو متبوع مطلق ہے اور سب آپ کے تابع ہیں ۔
" شعار " اور " دثار " شعار اس کپڑے کو کہتے ہیں جو پہننے میں جسم اور شعر یعنی بالوں سے لگا ہوجیسے کرتا وغیرہ اور " دثار " اس کپڑے کو کہتے ہیں جو پہنے ہوئے کپڑوں کے اوپر رہتا ہے جیسے چادر وغیرہ ۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو شعار کے ساتھ اس اعتبار سے تشبیہہ دی کہ صدق ایمان اور خلوص محب کا جوہر ان میں پیوست ہے گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ انصار میرے خاص اعتباری اور راز دار لوگ ہیں سب لوگوں میں باعتبار قدرو منزلت کے مجھ سے بہت قریب یہی لوگ ہیں ۔
" دوسرے لوگوں کو تم پر بلا استحقاق فضیلت دی جائے گی " اَثرۃً یا اُثرۃً یا اِثرۃً کے معنی ہیں حق تلفی اور بلا استحقاق دوسرے کسی شخص کو عہدہ یا منصب یا عطا میں فضیلت دینا ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایا کہ میرے بعد وہ زمانہ آئے گا جب لوگ عہدہ ومنصب کی تقسیم میں اپنی ذات کو مقدم رکھیں گے اور تم پر ترجیح دینگے ، امارت وحکومت پر خود فائز کریں گے اور ایسے ایسے لوگ کہ جو حقیقی مرتبہ ومنزلت کے اعتبار سے کم رتبہ ہوں گے اعلی عہدہ ومناصب حاصل کرلینے کے سبب تم سے بالا تر وافضل بن جائیں گے ، چنانچہ مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا تھا وہ پورا ہو کر رہا ، خصوصا حضرت امیر المؤمنین عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت میں بعض عمال خلافت کی طرف سے اور اموی دور حکومت میں عام طور پر انصار کی بڑی حق تلفیاں کی گئیں ۔ ان کے فضل وشرف کو نظر انداز کیا گیا اور حکومت وامارت کے مناصب سے ان کو محروم رکھنے کی کوشش کی گئی ۔ یا اس ارشاد گرامی سے آپ کا مطلب یہ تھا کہ فتوحات میں حاصل ہونے والا مال غنیمت امراء وحکام خود بانٹ لیا کریں گے اور عطا کے مال میں تمہارے حق میں نظر انداز کر کے اپنی ذات کو یا تم سے کم تر لوگوں کو تم پر فضیلت وترجیح دیں گے ۔ "
" یہاں تک کہ مجھ سے حوض کوثر پر ملو" یعنی حق تلفی کی صورت میں تمہیں جس دل شکستگی اور مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا اگر تم نے اس پر صبر کیا اور تمامتر شکایات کے باوجود نہ تو حاکم وقت سے بغاوت کے مرتکب ہوئے اور نہ ملی شیرازہ بکھرنے کا سبب بنے تو اس کا اجر تم کو اس وقت ملے گا جب حشر کے دن تم حوض کوثر پر آکر مجھ سے ملوگے ، کہ میری زیارت اور وہاں کی لازوال نعمتیں تمہیں باغ باغ کر دیں گی ، پس یہ ارشاد گرامی دراصل انصار کے اس صبر کے عوض ان کے لئے سرفرازی جنت کی بشارت ہے منقول ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد حکومت میں ایک دن بعض انصار کے پاس بعض مہاجرین کی شکایت لے کر آئے، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کی شکایت کا ازالہ نہ کر سکے ۔ اس پر انصار نے امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مخاطب کرکے کہا کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ ہی فرمایا تھا کہ (اے انصار ) تم میرے بعد دیکھوگے کہ دوسرے لوگوں کو تم پر بلا استحقاق ترجیح دی جائے گی (یہ سن کر ) امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا پھر اس وقت کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں کیا حکم دیا تھا ، انصار نے کہا صبر کرنے کا ، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بولے : تو پھر (شکوہ شکایت کے بجائے ') تمہیں صبر ہی کرنا چاہئے ۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں اسی بات کا حکم دیا ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں