مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ قیامت کی علامتوں کا بیان ۔ حدیث 9

جب زمین کا سینہ اپنے خزانوں کو باہر اگل دیگا

راوی:

وعنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم تقيء الأرض أفلاذ كبدها أمثال الأسطوانة من الذهب والفضة فيجيء القاتل فيقول في هذا قتلت ويجيء القاطع فيقول في هذا قطعت رحمي . ويجيء السارق فيقول في هذا قطعت يدي ثم يد عونه فلا يأخذون من شيئا . رواه مسلم .

" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ " (قیامت کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ ) زمین اپنے جگر کے ٹکڑوں کو نکال کر باہر پھینک دے گی جو سونے چاندی کے ستونوں کے مانند ہوں گے ۔ پس ایک شخص کہ جس نے محض مال حاصل کرنے کے لئے قتل کا ارتکاب کیا ہوگا آئے گا اور کہے گا کہ ( کیا ) اسی کے لئے میں نے لوگوں کو قتل کیا ہے، اور ایک شخص کہ جس نے ناطہ توڑا ہوگا (یعنی جس نے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کے ساتھ احسان وسلوک نہیں کیا ہوگا ) آئے گا اور کہے گا کہ (کیا) میں نے اسی مال کے لئے رشتہ داروں سے ناطہ توڑا ہے ، اور پھر چور آئے گا اور کہے گا کہ (کیا ) اسی مال کے لئے میرا ہاتھ کا ٹا گیا ہے ( یعنی ان سب کے کہنے کا مطلب یہ ہوگا کہ مال ودولت ایسی چیز ہے جس کی محبت میں اور جس کو حاصل کرنے کے لئے ہم نے ایسے ایسے گناہ کئے اور ایسی ایسی پریشانیوں سے دو چار ہوئے لیکن اب جب کہ یہ مال ودولت ہمارے سامنے اور ہمارے اختیار میں ہے اس کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ہے اور ہمیں اس کی کوئی حاجت و ضرورت محسوس نہیں ہوتی ) چنانچہ وہ سب لوگ اس مال و دولت کو یوں ہی چھوڑیں گے کہ کوئی بھی اس میں سے کچھ نہیں لے گا ۔ " (مسلم)

تشریح
" افلاذ " اصل میں " فلذۃ " کی جمع ہے جس کے معنی کسی چیز کے اس ٹکڑے کے ہیں جس کو لمبائی میں کاٹا گیا ہو اور قاموس میں لکھا ہے کہ فلذ ( ف کے زیر کے ساتھ ) کے معنی ہیں اونٹ کا جگر، جب کہ فلذۃ (یعنی ۃ کے ساتھ ، کے معنی ہیں جگر کا ٹکڑا ، سونے یا چاندی کا ٹکڑا ، اور گوشت کا ٹکڑا ۔
واضح رہے کہ زمین کے جگر ٹکڑے سے مراد زمین کے نیچے چھپے ہوئے خزینے یعنی معدنیات ہیں اور معدنیات کو " جگر کے ٹکڑوں " سے اس لئے تعبیر کیا گیا ہے ، زمین کا خلاصہ اور جوہر اصل میں معدنیات ہی ہیں جیسا کہ اونٹ کی سب سے اصل چیز اس کا جگر ہوتا ہے نیز معدنیات، زمین کی چیزوں میں سے سب سے زیادہ قابل اعتناء اور سب سے زیادہ پسندیدہ چیز ہے جیسا کہ پیٹ کے اندر کی چیزوں میں سے جگر ہی سب سے اعلیٰ ہے ۔
بہر حال حدیث کا حاصل یہ ہے کہ آخر زمانہ میں زمین کا سینہ بڑی فراخ دلی کے ساتھ اپنے اندر چھپے ہوئے خزانوں کو باہر اگل دے گا ہر طرف معدنیات کا کام زور شور کے ساتھ جاری ہوگا اور ایک ایک ملک میں مختلف قسم کی مفید و کارآمد اور قیمتی چیزیں کانوں کے ذریعہ نکالی جائیں گی جس کے ذریعہ نسل انسانی مال ودولت کی فراوانی میں غرق ہو جائے گی ۔

یہ حدیث شیئر کریں