مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ یمن اور شام اور اویس قرنی کے ذکر کا باب ۔ حدیث 973

اہل شام پر لعنت کرنے سے حضرت علی کا انکار

راوی:

عن شريح بن عبيد قال : ذكر أهل الشام عند علي [ رضي الله عنه ] وقيل العنهم يا أمير المؤمنين قال : لا إني سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : " الأبدال يكونون بالشام وهم أربعون رجلا كلما مات رجل أبدل الله مكانه رجلا يسقى بهم الغيث وينتصر بهم على الأعداء ويصرف عن أهل الشام بهم العذاب "

حضرت شریح بن عبید تابعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ روایت کرتے ہیں کہ (ایک موقعہ پر ) سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے سامنے اہل شام کا ذکر کیا گیا اور ان سے کہا گیا کہ اے امیر المؤمنین !شام والوں پر لعنت کیجئے ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے کہا : نہیں (میں اہل شام پر لعنت نہیں کرسکتا ) حقیقت تو یہ ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے ابدال شام میں ہوتے ہیں اور وہ چالیس مرد ہیں ، جب ان میں سے کوئی شخص مرجاتا ہے تو اللہ اس کی جگہ دوسرے شخص کو مقرر کردیتا ہے ان (ابدال) کے وجود و برکت سے بارش ہوتی ہے، ان کی مدد سے دشمنان دین سے بدلہ لیا جاتا ہے ، اور انہیں کی برکت سے اہل شام سے (سخت ) عذاب کو دفع کیا جاتا ہے ۔ "

تشریح :
اہل شام کا ذکر کیا گیا ہے ، میں " اہل شام " سے مراد حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مخالفین یعنی حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور شام والوں میں سے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حامی ومدد گار ہیں ، حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ملک شام کے حاکم (گورنر ) مقرر ہوئے تھے، اور آخر تک وہ شام پر حکومت کرتے رہے، انہوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت کو تسلیم نہیں کیا تھا اور شام میں خود مختیار حکومت کے مالک ہوگئے تھے، انہی حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے شامی حامیوں کا ذکر برائی کے ساتھ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سامنے کیا ہوگا اور کہا کہ آپ اپنے ان مخالفین اہل شام پر لعنت کیجئے ۔
" ابدال" شام میں ہوتے ہیں " حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ بھلا میں اہل شام پر لعنت کیسے کرسکتا ہوں شام تو وہ سر زمین ہے جہاں ابدال ہوتے ہیں، اگر میں نے اہل شام پر لعنت کی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ان اہل شام کے ضمن میں ابدال بھی آجائیں علماء اہل سنت کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ کہنا درحقیقت محاذ آرائی سے بچنے کے لئے اس وقت اہل شام پر لعنت کرنے سے گریز کرنا تھا تاہم اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ابدال کو مستثنیٰ کر کے باقی اہل شام پر لعنت کرنے کو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جائز سمجھتے تھے جیسا کہ ان کے مذکورہ الفاظ سے ابتداء مفہوم ہوتا ہے اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں تو ایسا تصور بھی نہیں ہونا چاہئے کیونکہ خود انہی امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ارشاد ہے کہ : یہ (اہل شام ) تو ہمارے بھائی ہیں جو ہم سے منحرف ہوگئے ہیں، اسی طرح ایک روایت میں آیا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لشکر والے اپنے مخالفین یعنی حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لشکر والوں میں سے ایک شخص کو پکڑ کر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں لائے تو اس کو دیکھ کر وہاں موجود ایک شخص بولا کتنی عجیب بات ہے (کہ یہ شخص مخالفین علی کے لشکر میں شامل ہے') میں تو اس آدمی کو اچھا مسلمان سمجھتا تھا، حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اس کی زبان سے یہ الفاظ سنے تو فرمایا یہ تم کیا کہہ رہے ہو، اب بھی تو یہ شخص مسلمان ہی ہے، ان کے علاوہ اور بھی ایسے آثار واخبار منقول ہیں جن سے سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کی نظر میں حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے حامی اہل شام کا مسلمان ہونا ثابت ہے ۔
" اور انہی کی برکت سے اہل شام سے عذاب کو دفع کیا جاتا ہے " یہاں اہل شام کی تخصیص اس بناء پر ہے کہ ان ابدال کا جسمانی وجود اہل شام کے درمیان ہوتا ہے اور اس سبب سے اہل شام ان کی قربت اور ان کے ارتباط میں سب سے زیادہ رہتے ہیں ورنہ عمومی طور پر تو ان ابدال کی برکت ونصرت تمام عالم کو ہوتی ہے ۔
واضح ہو کہ ابدال کے وجود کا ذکر اس حدیث میں بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے حوالہ سے مذکور ہے شیخ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے ان حدیثوں کو نقل کیا ہے اور پھر ایک حدیث حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے نقل کی ہے جس میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : خیار امۃ یعنی امت کے نیک ترین لوگ جو اس امت میں ہمیشہ موجود رہتے ہیں ان کی تعداد پانچ سو ہے اور ابدال چالیس کی تعداد میں رہتے ہیں ، نہ پانچ سو کی تعداد کم ہوتی ہے اور نہ چالیس کی ، جب کوئی ابدال مرجاتا ہے تو اس کی جگہ اللہ تعالیٰ ان پانچ سو خیار امت میں سے کسی ایک کو مقرر کردیتا ہے (یہ سن کر ) صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمیں ان کے اعمال کے بارے میں بھی بتا دیجئے (کہ آخر وہ کیا عمل کرتے ہیں جس کے سبب ان کو یہ مرتبہ ومقام ملتا ہے ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ اس شخص کو معاف کردیتے ہیں جو ان پر ظلم کرتا ہے ، اس شخص کے ساتھ بھی نیک سلوک کرتے ہیں جو ان کے ساتھ براسلوک کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کو جو کچھ بھی دیتا ہے اس کے ذریعہ وہ فقراء ومساکین کی خبر گیری کرتے ہیں اور اس کی تصدیق قرآن کریم کی اس آیت سے حاصل کی جاسکتی ہے ۔
الکاظمین الغیظ والعافین عن الناس و اللہ یحب المحسین ۔
(اعلیٰ درجہ کے اہل ایمان لوگ تو وہ ہیں ) جو غصہ کے ضبط کرنے والے اور لوگوں (کی تقصیرات ) سے درگزر کرنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ ایسے نیکو کاروں کو محبوب رکھتا ہے ۔ "
اور روایت ابن عساکر نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالہ سے نقل کیا ہے اس میں عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ کی طرف سے چالیس ایسے آدمی مقرر ہوتے ہیں جن کے قلوب حضرت آدم علیہ السلام کے قلب پر ہیں اور اس کی طرف سے سات ایسے آدمی مقرر ہوتے ہیں جن کے قلوب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قلب پر ہیں ، اور اس کی طرف سے پانچ ایسے آدمی مقرر ہوتے ہیں جن کے قلوب حضرت جبرائیل علیہ السلام کے قلب پر ہیں اور اس کی طرف سے تین ایسے لوگ مقرر ہوتے ہیں جن کے قلب میکائیل کے قلب پر ہیں ، اور اس کی طرف سے ایک ایسا آدمی مقرر ہوتا ہے جس کا قلب اسرافیل کے قلب پر ہے پس جب وہ آدمی مرجاتا ہے تو اس کی جگہ پر اللہ تعالیٰ ان پانچ آدمیوں سے کسی کو مقرر کردیتا ہے ، اور جب ان پانچ آدمیوں میں سے کوئی مرجاتا ہے تو اس کی جگہ پر اللہ تعالیٰ ان سات آدمیوں سے کسی ایک کو مقرر کردیتا ہے اور جب ان سات آدمیوں میں سے کوئی مرجاتا ہے تو اس کی جگہ پر اللہ تعالیٰ ان چالیس آدمیوں سے کسی ایک کو مقرر کردیتا ہے اور جب ان چالیس آدمیوں سے کوئی مرجاتا ہے تو اس جگہ پر اللہ تعالیٰ ان تین سو آدمیوں میں سے کسی ایک کو مقرر کردیتا ہے ، اور جب ان تین سو آدمیوں میں سے کوئی مرجاتا ہے تو اس کی جگہ پر اللہ تعالیٰ عوام میں سے کسی ایک آدمی کو مقرر کردیتا ہے اور ان سب آدمیوں کے وجود کے سبب سے ہر بلا و آفت دفع کی جاتی ہے ۔ اس حدیث کے ضمن میں بعض عارفین نے لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ذکر نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ایسا آدمی بھی مقرر ہوتا ہے جس کا قلب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک پر ہو اس کی وجہ سے زیادہ عزیز ، زیادہ باشرف اور زیادہ لطیف وپاکیزہ ہو، لہٰذا اللہ کے برگزیدہ ترین بندوں میں سے کسی کا قلب 'آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک کے برابر ومقابل نہیں ہے ، خواہ وہ ابدال ہوں یا اقطاب ۔

یہ حدیث شیئر کریں