مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ یمن اور شام اور اویس قرنی کے ذکر کا باب ۔ حدیث 975

خلافت مدینہ میں اور ملوکیت شام میں

راوی:

وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " الخلافة بالمدينة والملك بالشام "

" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " خلافت مدینہ میں ہے اور ملوکیت یعنی بادشاہت شام میں"

تشریح :
" خلافت مدینہ میں ہے" کا مطلب یہ ہے کہ خلافت کا پائیہ تخت غالب عرصہ تک مدینہ میں رہے گا " غالب عرصہ " کی قید اس لئے ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اپنی خلافت کے زمانہ میں اپنا پایہ تخت کوفہ کو بنا رکھا تھا ، یا پھر اس جملہ کی مراد یہ ہے کہ خلافت مستقرہ مدینہ میں ہے ۔
" ملوکیت یعنی بادشاہت شام میں ہے ' ' اس جملہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب خلافت سے دست کشی اختیار کرلی اور امور مملکت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سپرد کر آئے تو بھی امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ نہیں ہوئے ۔ اس کی تائید میں اس روایت کو پیش کیا جاسکتا ہے جو احمد ، ترمذی ، ابولیلی ، اور ابن حبان نے نقل کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : میرے بعد میری امت میں خلافت کا زمانہ بس تیس سال تک رہے گا اس کے بعد پھر ملوکیت وبادشاہت آجائے گی ،
بعض حضرات نے لکھا ہے کہ اس حدیث میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت اور حضرت امیر معاویہ کی ملوکیت وبادشاہت کی طرف اشارہ ہے واضح ہو کہ ایک اور حدیث میں " ملک " یعنی ملوکیت وبادشاہت کا ذکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص واوصاف میں ہوا ہے اس میں یوں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مولد یعنی جائے پیدائش تو مکہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مہاجر یعنی جائے ہجرت مدینہ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ملک یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بادشاہت شام میں ہے ، تو اس حدیث میں " ملک" سے مراد نبوت ودین ہے ، مطلب یہ کہ یوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور آپ کا دین تمام عالم پر ظاہر ہوگا ، لیکن آپ کی نبوت کا فیضان اور آپ کا دین آخر میں جس جگہ سب سے غالب صورت میں ظاہر ہوگا وہ ملک شام ہے ، اور بعض حضرات نے " آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاملک یعنی بادشاہت شام میں ہے " کی مراد یہ بیان کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی سربلندی کے لئے جہاد وقتال کی سب سے بڑی جگہ ملک شام ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اہل شام دشمنان دین کے خلاف برسر پیکار اور مصروف جہاد ہوں گے اور اس طرح اس جملہ میں مسلمانوں کے لئے ترغیب ہے کہ وہ آخر زمانہ میں جہاد اور اسلامی سرحدوں کی حفاظت کرنے کی فضیلت وسعادت کے جویا ہوں تو شام کی راہ پکڑیں ،

یہ حدیث شیئر کریں