مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ یمن اور شام اور اویس قرنی کے ذکر کا باب ۔ حدیث 989

ارباب حدیث کی فضیلت

راوی:

وعن معاوية بن قرة عن أبيه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إذا فسد أهل الشام فلا خير فيكم ولا يزال طائفة من أمتي منصورين لا يضرهم من خذلهم حتى تقوم الساعة " قال ابن المديني : هم أصحاب الحديث . رواه الترمذي وقال : هذا حديث حسن صحيح

" حضرت معاویہ بن قرۃ سے روایت ہے جو اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " جب اہل شام تباہ ہو جائیں تو پھر تم میں بھلائی نہ ہوگی اور میری امت میں ہمیشہ ایک جماعت ایسی رہے گی جس کو ( دشمنان دین کے مقابلہ پر غالب رہنے کے لئے اللہ کی نصرت و تائید حاصل ہوگی، اس جماعت کو وہ شخص کچھ نقصان و ضرر نہ پہنچا سکے گا جو اس کی تائید واعانت ترک کر دے (کیو نکہ اس جماعت پر اللہ تعالیٰ کی عنایت بے شمار ہوگی ) تا آنکہ قیامت قائم ہو اور علامہ ابن مدینی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ ( جو اکابر محدثین میں سے ہیں ) کہتے ہیں کہ اس جماعت سے مراد ارباب حدیث ہیں اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ "

تشریح :
حضرت معاویہ بن قرہ کے والد کا نام قرہ بن ایاس ہے جو صحابی ہیں ۔ خود حضرت معاویہ بن قرہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ ایک تابعی ہیں، ان کا شمار اہل علم و عمل میں ہوتا ہے ۔ بلند پایہ فقیہہ کی حیثیت سے بھی مشہور ہیں جنگ جمل کے دن ان کی ولادت ہوئی تھی اور ١١٣ھ میں واصل بحق ہوئے۔
" تو پھر تم میں بھلائی نہ ہوگی ۔ ۔ ۔ " یعنی جب اہل شام میں بھی فساد و تباہی پھیل جائے گی تو اس وقت شام میں سکونت اختیار کرنا یا اپنے وطن سے ہجرت کر کے ملک شام میں جانے میں کوئی بھلائی نہیں رہے گی ۔
اور حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے یوں وضاحت کی ہے کہ ان الفاظ کی بظاہر مراد یہ ہے کہ آخر زمانہ میں اہل شام اللہ کے سچے دین پر قائم ہو نگے اور خیر امت ہونے کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دیں گے اور پھر آخر کار ان میں بھی تباہی آجائے گی اور یہ اس وقت ہوگا جب قیامت آئے گی تو اس دنیا میں صرف بدکار لوگ موجود ہوں گے چنانچہ اہل شام کے تباہ ہونے کے ساتھ ہی اس روئے زمین سے خیر کا وجود اٹھ جائے گا جو اس بات کا نتیجہ ہوگا کہ اس وقت اہل خیر میں سے کوئی بھی اس دنیا میں باقی نہیں ہوگا ۔
تا آ نکہ قیامت قائم ہو ۔ ۔ ۔ میں قیامت قائم ہونے سے مراد قائم ہونے کا وقت بالکل قریب آجانا ہے کیونکہ یہ تو اوپر ہی بتایا جا چکا ہے کہ جب قیامت قائم ہوگی تو اس وقت روئے زمین پر کوئی کلمہ گو باقی نہیں ہوگا ۔
" اس جماعت سے مراد ارباب حدیث ہیں ۔ ۔ ۔ " یعنی وہ محدثین اور اہل علم کہ جو حدیث کے حفاظ ہیں، حد یثوں کے راوی ہیں، سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر جو کہ کتاب اللہ کی ترجمان اور شارح ہے عمل کرنے اور جو درس وتدریس، تصنیف وتا لیف ، تعلیم و تبلیغ کے ذریعہ احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور علوم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اور اس کے سیکھنے سکھانے میں لگے ہوئے ہیں اور گویا وہ گروہ جن کو " اہل سنت و الجماعت " سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں