جس مسئلے کے بارے کتاب و سنت کا حکم موجود نہ ہو اس کے بارے میں جواب دینے سے پرہیز
راوی:
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ حَدَّثَنَا عَلِيٌّ هُوَ ابْنُ مُسْهِرٍ عَنْ هِشَامٍ هُوَ ابْنُ عُرْوَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ نَوْفَلٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ قَالَ مَا زَالَ أَمْرُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مُعْتَدِلًا لَيْسَ فِيهِ شَيْءٌ حَتَّى نَشَأَ فِيهِمْ الْمُوَلَّدُونَ أَبْنَاءُ سَبَايَا الْأُمَمِ أَبْنَاءُ النِّسَاءِ الَّتِي سَبَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ مِنْ غَيْرِهِمْ فَقَالُوا فِيهِمْ بِالرَّأْيِ فَأَضَلُّوهُمْ
حضرت عروہ بن زبیر بیان کرتے ہیں بنی اسرائیل کا معاملہ اس وقت تک ٹھیک رہا اور ان میں کوئی خرابی نہیں آئی یہاں تک کہ ان میں باہر سے پیدا ہونے والے بچوں نے نشوونما نہیں پائی یہ مختلف اقوام کے بچے تھے یہ ان عورتوں کے اولاد تھے جنہیں بنی اسرائیل نے دوسری اقوام میں سے قیدی بنایا تھا ان لوگوں نے رائے کے مطابق بات کہنا شروع کی اور انہیں گمراہ کر دیا۔
