سنن دارمی ۔ جلد اول ۔ مقدمہ دارمی ۔ حدیث 148

جو شخص فتوی دینے سے بچے اور مبالغہ آمیز اور بدعت کے بیان کو ناپسند کرے۔

راوی:

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ أَخْبَرَنِي ابْنُ عَجْلَانَ عَنْ نَافِعٍ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ صَبِيغًا الْعِرَاقِيَّ جَعَلَ يَسْأَلُ عَنْ أَشْيَاءَ مِنْ الْقُرْآنِ فِي أَجْنَادِ الْمُسْلِمِينَ حَتَّى قَدِمَ مِصْرَ فَبَعَثَ بِهِ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَلَمَّا أَتَاهُ الرَّسُولُ بِالْكِتَابِ فَقَرَأَهُ فَقَالَ أَيْنَ الرَّجُلُ قَالَ فِي الرَّحْلِ قَالَ عُمَرُ أَبْصِرْ أَيَكُونُ ذَهَبَ فَتُصِيبَكَ مِنْهُ الْعُقُوبَةُ الْمُوجِعَةُ فَأَتَاهُ بِهِ فَقَالَ عُمَرُ تَسْأَلُ مُحْدَثَةً وَأَرْسَلَ عُمَرُ إِلَى رَطَائِبَ مِنْ جَرِيدٍ فَضَرَبَهُ بِهَا حَتَّى تَرَكَ ظَهْرَهُ دَبِرَةً ثُمَّ تَرَكَهُ حَتَّى بَرَأَ ثُمَّ عَادَ لَهُ ثُمَّ تَرَكَهُ حَتَّى بَرَأَ فَدَعَا بِهِ لِيَعُودَ لَهُ قَالَ فَقَالَ صَبِيغٌ إِنْ كُنْتَ تُرِيدُ قَتْلِي فَاقْتُلْنِي قَتْلًا جَمِيلًا وَإِنْ كُنْتَ تُرِيدُ أَنْ تُدَاوِيَنِي فَقَدْ وَاللَّهِ بَرَأْتُ فَأَذِنَ لَهُ إِلَى أَرْضِهِ وَكَتَبَ إِلَى أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ أَنْ لَا يُجَالِسَهُ أَحَدٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَاشْتَدَّ ذَلِكَ عَلَى الرَّجُلِ فَكَتَبَ أَبُو مُوسَى إِلَى عُمَرَ أَنْ قَدْ حَسُنَتْ تَوْبَتُهُ فَكَتَبَ عُمَرُ أَنْ ائْذَنْ لِلنَّاسِ بِمُجَالَسَتِهِ

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام نافع بیان کرتے ہیں صبیغ عراقی نامی ایک شخص مسلمانوں کے ایک لشکر میں قرآن سے متعلق بعض سوال کیا کرتا تھا وہ مصر آیا تو حضرت عمرو بن عاص نے اسے حضرت عمر کے پاس بھیج دیا جب قاصد حضرت عمرو بن عاص کا خط لے کر آیا اور حضرت عمر نے اسے پڑھ لیا تو دریافت کیا یہ شخص کہاں ہے قاصد نے جواب دیا پڑاؤ میں ہے حضرت عمر نے ارشاد فرمایا اس کا خیال رکھنا وہ چلا نہ جائے ورنہ میں تمہیں سخت سزادوں گا پھر اس شخص کو حضرت عمر کے پاس لایا گیا حضرت عمر نے دریافت کیا تم نئے قسم کے سوالات کرتے ہو پھر حضرت عمر نے لکڑی کی سوٹیاں منگوائی اور ان کے ذریعے اس کی پٹائی کرکے اس کی پشت کو زخمی کردیا پھر اسے چھوڑ دیا جب وہ ٹھیک ہوگیا تو دوبارہ اسے اسی طرح مارا پھر اسے چھوڑ دیا اور وہ دوبارہ ٹھیک ہوا پھر اسے بلایا تاکہ دوبارہ اسے ماریں تو صبیغ نامی اس شخص نے کہا اگر آپ مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں تواچھے طریقے سے قتل کریں اور اگر آپ میرا علاج کرنا چاہتے ہیں تو اللہ کی قسم میں اب ٹھیک ہوگیا ہوں حضرت عمر نے اسے اجازت دی کہ وہ اپنے علاقے میں واپس چلاجائے حضرت عمر نے حضرت موسی اشعری کو خط میں لکھا کہ کوئی بھی مسلمان اس کے پاس نہ بیٹھے۔ یہ بات اس شخص کے لئے بڑی پریشانی کا باعث بنی پھر حضرت ابوموسی نے حضرت عمر کو خط میں لکھا کہ اس شخص نے اچھی طرح توبہ کرلی ہے تو حضرت عمر نے جواب دیا اب تم لوگوں کو اس کے پاس بیٹھنے کی اجازت دے سکتے ہو۔

یہ حدیث شیئر کریں