سنن دارمی ۔ جلد اول ۔ مقدمہ دارمی ۔ حدیث 167

فتوی دینا اور اس کے بارے میں شدت

راوی:

. أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُسْهِرٍ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ شُرَيْحٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ كَتَبَ إِلَيْهِ إِنْ جَاءَكَ شَيْءٌ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَاقْضِ بِهِ وَلَا تَلْفِتْكَ عَنْهُ الرِّجَالُ فَإِنْ جَاءَكَ مَا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَانْظُرْ سُنَّةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاقْضِ بِهَا فَإِنْ جَاءَكَ مَا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَمْ يَكُنْ فِيهِ سُنَّةٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَانْظُرْ مَا اجْتَمَعَ عَلَيْهِ النَّاسُ فَخُذْ بِهِ فَإِنْ جَاءَكَ مَا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَمْ يَكُنْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَتَكَلَّمْ فِيهِ أَحَدٌ قَبْلَكَ فَاخْتَرْ أَيَّ الْأَمْرَيْنِ شِئْتَ إِنْ شِئْتَ أَنْ تَجْتَهِدَ رَأْيَكَ ثُمَّ تَقَدَّمَ فَتَقَدَّمْ وَإِنْ شِئْتَ أَنْ تَأَخَّرَ فَتَأَخَّرْ وَلَا أَرَى التَّأَخُّرَ إِلَّا خَيْرًا لَكَ

شریح بیان کرتے ہیں حضرت عمر بن خطاب نے انہیں خط میں لکھا اگر تمہارے پاس کوئی ایسا مسئلہ آئے جو اللہ کی کتاب میں موجود ہو تو تم اس کے مطابق فیصلہ کرو اس کے بارے میں لوگوں کی طرف توجہ نہ کرو۔ اگر تمہارے پاس کوئی ایسا مسئلہ آئے جو اللہ کی کتاب میں موجود نہ ہو تو اس بارے میں اللہ کے رسول کی سنت کا جائزہ لو اور اس کے مطابق فیصلہ دو اگر تمہارے پاس ایسا مسئلہ آئے جو اللہ کی کتاب میں موجود نہ ہو اس بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت موجود نہ ہو تو تم اس بات کا جائزہ لو کہ لوگ جس معاملے پر متفق ہوں اس کے بارے میں فیصلہ دو اگر تمہارے پاس کوئی ایسا مسئلہ آئے اللہ کی کتاب کا حکم موجود نہ ہو اور اس بارے میں سنت موجود نہ ہو اور تم سے پہلے لوگوں نے اس بارے میں کوئی رائے نہ دی ہو تو تم دو میں سے کسی ایک صورت کو اختیار کرسکتے ہو اگر تم چاہو اجتہاد کر کے اپنی رائے کے ذریعے فیصلہ دے کر آگے آسکتے ہو اور اگر چاہو تو اس مسئلے میں سے پیچھے ہٹ جاؤ میرے خیال میں تمہارا اس مسئلے سے پیچھے ہٹ جانا زیادہ بہتر ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں