سنن دارمی ۔ جلد اول ۔ مقدمہ دارمی ۔ حدیث 200

زمانے میں تبدیلی آنے اور اس میں نئے امور پیدا ہونے کا تذکرہ

راوی:

أَخْبَرَنَا حَجَّاجٌ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْهُذَلِيُّ عَنْ الشَّعْبِيِّ قَالَ شَهِدْتُ شُرَيْحًا وَجَاءَهُ رَجُلٌ مِنْ مُرَادٍ فَقَالَ يَا أَبَا أُمَيَّةَ مَا دِيَةُ الْأَصَابِعِ قَالَ عَشْرٌ عَشْرٌ قَالَ يَا سُبْحَانَ اللَّهِ أَسَوَاءٌ هَاتَانِ جَمَعَ بَيْنَ الْخِنْصِرِ وَالْإِبْهَامِ فَقَالَ شُرَيْحٌ يَا سُبْحَانَ اللَّهِ أَسَوَاءٌ أُذُنُكَ وَيَدُكَ فَإِنَّ الْأُذُنَ يُوَارِيهَا الشَّعْرُ وَالْكُمَّةُ وَالْعِمَامَةُ فِيهَا نِصْفُ الدِّيَةِ وَفِي الْيَدِ نِصْفُ الدِّيَةِ وَيْحَكَ إِنَّ السُّنَّةَ سَبَقَتْ قِيَاسَكُمْ فَاتَّبِعْ وَلَا تَبْتَدِعْ فَإِنَّكَ لَنْ تَضِلَّ مَا أَخَذْتَ بِالْأَثَرِ قَالَ أَبُو بَكْرٍ فَقَالَ لِي الشَّعْبِيُّ يَا هُذَلِيُّ لَوْ أَنَّ أَحْنَفَكُمْ قُتِلَ وَهَذَا الصَّبِيُّ فِي مَهْدِهِ أَكَانَ دِيَتُهُمَا سَوَاءً قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَأَيْنَ الْقِيَاسُ

شعبی بیان کرتے ہیں ایک مرتبہ میں قاضی شریح کے پاس موجود تھا قبیلہ مراد سے تعلق رکھنے والا ایک شخص ان کے پاس آیا اور بولا اے ابوامیہ (یہ قاضی شریح کی کنیت ہے) انگلیوں کی دیت کیا ہے ۔ قاضی صاحب نے جواب دیا دس اونٹ وہ شخص بولا سبحان اللہ کیا یہ دونوں برابر ہیں۔ اس نے انگھوٹے اور سب سے چھوٹی انگلی کے ذریعے اشارہ کرکے کہا قاضی شریح نے جواب دیا سبحان اللہ کیا تمہارا کان اور تمہارے ہاتھ برابر کی حثیت رکھتے ہیں کیونکہ کان کو تو بال،ٹوپی یا عمامہ ڈھانپ لیتے اور ان میں نصف دیت ہوتی ہے جبکہ ہاتھ کی دیت بھی نصف دیت ہوتی ہے تمہارا ستیاناس ہو تمہارے قیاس سے پہلے سنت کا حکم آچکا ہے اس لئے تم اس کی پیروی کرو اور بدعت اختیار کرنے کی کوشش نہ کرو۔ تم اس وقت تک گمراہی کا شکار نہیں ہو گے جب تک تم سنت پر عمل کرتے رہو گے۔ ابوبکر نامی راوی کہتے ہیں امام شعبی نے مجھ سے کہا اے ھذلی اگر تمہارے ایک بڑے سمجھ دار آدمی کو اور جھولے میں موجود ایک بچے کو قتل کر دیا جائے تو کیا ان کی دیت برابر نہیں ہوگی؟ میں نے جواب دیا جی ہاں توشعبی نے دریافت کیا پھر قیاس کہاں گیا۔

یہ حدیث شیئر کریں