سنن دارمی ۔ جلد اول ۔ مقدمہ دارمی ۔ حدیث 346

علم اور عالم کی فضیلت

راوی:

أَخْبَرَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ رَجَاءِ بْنِ حَيْوَةَ عَنْ دَاوُدَ بْنِ جَمِيلٍ عَنْ كَثِيرِ بْنِ قَيْسٍ قَالَ كُنْتُ جَالِسًا مَعَ أَبِي الدَّرْدَاءِ فِي مَسْجِدِ دِمَشْقَ فَأَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ يَا أَبَا الدَّرْدَاءِ إِنِّي أَتَيْتُكَ مِنْ الْمَدِينَةِ مَدِينَةِ الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِحَدِيثٍ بَلَغَنِي عَنْكَ أَنَّكَ تُحَدِّثُهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَمَا جَاءَ بِكَ تِجَارَةٌ قَالَ لَا قَالَ وَلَا جَاءَ بِكَ غَيْرُهُ قَالَ لَا قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ بِهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللَّهُ بِهِ طَرِيقًا مِنْ طُرُقِ الْجَنَّةِ وَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا رِضًا لِطَالِبِ الْعِلْمِ وَإِنَّ طَالِبَ الْعِلْمِ لَيَسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ حَتَّى الْحِيتَانُ فِي الْمَاءِ وَإِنَّ فَضْلَ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِ الْقَمَرِ عَلَى سَائِرِ النُّجُومِ إِنَّ الْعُلَمَاءَ هُمْ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ إِنَّ الْأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا وَإِنَّمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَ بِهِ أَخَذَ بِحَظِّهِ أَوْ بِحَظٍّ وَافِرٍ

کثیر بن قیس فرماتے ہیں میں حضرت ابودرداء کے ساتھ مسجد دمشق میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور بولا اے حضرت ابودرداء میں مدینہ سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا شہر ہے اور ایک حدیث کے سلسلے میں آیا ہوں جس کے بارے میں مجھے پتا چلا ہے کہ وہ آپ حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بیان کرتے ہیں حضرت ابودرداء نے دریافت کیا کیا تم تجارت کی غرض سے یہاں آئے ہو۔ اس نے جواب دیا نہیں حضرت ابودرداء نے دریافت کیا کیا اس کے علاوہ کسی اور مقصد کے تحت آئے ہو اس نے جواب دیا نہیں حضرت ابودرداء میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے جو شخص علم کے حصول کے لئے راستے پر چلتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس شخص کے لئے جنت کے راستے آسان کر دیتا ہے اور علم کے طلبگار سے راضی ہو کر فرشتے اپنے پر اس کے لئے بچھا دیتے ہیں اور بے شک عالم شخص کو عبادت گزار آسمان اور زمین میں موجود ہر چیز یہاں تک کہ پانی میں موجود مچھلیاں بھی دعائے مغفرت کرتی ہیں اور بے شک عالم کی فضیلت عبادت گزار پر وہی فضیلت ہے جو چاند کو تمام ستاروں پر حاصل ہے۔ بے شک علماء ہی انبیاء کے وارث ہیں۔ بے شک انبیاء وراثت میں دینار یا درہم نہیں چھوڑتے وہ وراثت میں علم چھوڑتے ہیں جو اس میں سے جتنا حاصل کرے وہ اپنا حصہ حاصل کرلیتا ہے ۔ (راوی کو شک ہے یا شاید یہ الفاظ ہیں) وہ بڑا حصہ حاصل کرلیتا ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں