جن لوگوں کے نزدیک حدیث تحریر کرنا (مناسب نہیں ہے)
راوی:
أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ هِشَامٍ حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ يَزِيدَ الْحِمْصِيُّ عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ قَالَ وَفَدْتُ مَعَ أَبِي إِلَى يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ بِحُوَّارَيْنَ حِينَ تُوُفِّيَ مُعَاوِيَةُ نُعَزِّيهِ وَنُهَنِّيهِ بِالْخِلَافَةِ فَإِذَا رَجُلٌ فِي مَسْجِدِهَا يَقُولُ أَلَا إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ تُرْفَعَ الْأَشْرَارُ وَتُوضَعَ الْأَخْيَارُ أَلَا إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ يَظْهَرَ الْقَوْلُ وَيُخْزَنَ الْعَمَلُ أَلَا إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ تُتْلَى الْمَثْنَاةُ فَلَا يُوجَدُ مَنْ يُغَيِّرُهَا قِيلَ لَهُ وَمَا الْمَثْنَاةُ قَالَ مَا اسْتُكْتِبَ مِنْ كِتَابٍ غَيْرِ الْقُرْآنِ فَعَلَيْكُمْ بِالْقُرْآنِ فَبِهِ هُدِيتُمْ وَبِهِ تُجْزَوْنَ وَعَنْهُ تُسْأَلُونَ فَلَمْ أَدْرِ مَنْ الرَّجُلُ فَحَدَّثْتُ بِذَا الْحَدِيثِ بَعْدَ ذَلِكَ بِحِمْصَ فَقَالَ لِي رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ أَوَ مَا تَعْرِفُهُ قُلْتُ لَا قَالَ ذَلِكَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو
عمرو بن قیس بیان کرتے ہیں میں اپنے والد کے ہمراہ وفد کی شکل میں یزید بن معاویہ کی خدمت میں حوارین میں حاضر ہوا یہ اس وقت کی بات ہے جب حضرت معاویہ کا انتقال ہوا تھا ہم نے یزید سے تعزیت کرنی تھی اور اسے خلافت کی مبارک باد دینی تھی ہم نے دیکھا ایک شخص مسجد میں یہ کہہ رہا ہے خبردار قیامت کی نشانیوں میں ایک یہ بات بھی ہے کہ برے لوگوں کو چڑھا دیا جائے گا اور نیک لوگوں کو اٹھالیا جائے گا۔ خبردار قیامت کی نشانیوں میں ایک یہ بات بھی ہے کہ باتیں کی جائیں گی اور عمل ترک کردیا جائے گا۔ خبردار قیامت کی نشانیوں میں ایک یہ بات بھی کہ مثنات کو پڑھا جائے گا اور کوئی ایسا شخص نہیں ملے گا جو اسے مٹادے۔ ان سے دریافت کیا گیا مثنات کیا ہے انہوں نے جواب دیا وہ چیز جو قرآن کے علاوہ ہو اسے نوٹ کیا جائے تمہارے اوپر لازم ہے کہ تم قرآن کو اختیار کرو اور اس کے ذریعے ہی تمہیں ہدایت ملے گی۔ اسی کے ذریعے تمہیں بدلہ ملے گا اور اسی کے حوالے سے تم سے حساب لیا جائے گا۔ راوی بیان کرتے ہیں مجھے نہیں پتہ چلا کہ وہ کون صاحب ہیں میں نے حمص میں یہ حدیث بیان کی تو حاضرین میں سے ایک شخص نے مجھ سے دریافت کیا کیا تم نے انہیں پہچانا نہیں میں نے جواب دیا نہیں اس شخص نے بتایا وہ حضرت عبداللہ بن عمر تھے۔
