سنن نسائی ۔ جلد سوم ۔ کتاب الا شربة ۔ حدیث 2004

جو لوگ شراب کا جواز ثابت کرتے ہیں ان کی دلیل حضرت عبدالملک بن نافع والی حضرت ابن عمر سے مروی حدیث بھی ہے

راوی: زیاد بن ایوب , ہشیم , عوام , عبدالملک بن نافع

أَخْبَرَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ قَالَ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ قَالَ أَنْبَأَنَا الْعَوَّامُ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ نَافِعٍ قَالَ قَالَ ابْنُ عُمَرَ رَأَيْتُ رَجُلًا جَائَ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَدَحٍ فِيهِ نَبِيذٌ وَهُوَ عِنْدَ الرُّکْنِ وَدَفَعَ إِلَيْهِ الْقَدَحَ فَرَفَعَهُ إِلَی فِيهِ فَوَجَدَهُ شَدِيدًا فَرَدَّهُ عَلَی صَاحِبِهِ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَحَرَامٌ هُوَ فَقَالَ عَلَيَّ بِالرَّجُلِ فَأُتِيَ بِهِ فَأَخَذَ مِنْهُ الْقَدَحَ ثُمَّ دَعَا بِمَائٍ فَصَبَّهُ فِيهِ فَرَفَعَهُ إِلَی فِيهِ فَقَطَّبَ ثُمَّ دَعَا بِمَائٍ أَيْضًا فَصَبَّهُ فِيهِ ثُمَّ قَالَ إِذَا اغْتَلَمَتْ عَلَيْکُمْ هَذِهِ الْأَوْعِيَةُ فَاکْسِرُوا مُتُونَهَا بِالْمَائِ

زیاد بن ایوب، ہشیم، عوام، عبدالملک بن نافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمر نے فرمایا میں نے ایک شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس دیکھا کہ وہ شخص نبیذ کا ایک پیالہ لے کر حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت کھڑے ہوئے تھے۔ وہ پیالہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیش کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو منہ لگایا تو وہ تیز لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ پیالہ اس شخص کو واپس دے دیا۔ اسی دوران ایک دوسرا شخص بولا کہ یا رسول اللہ! کیا یہ حرام ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص پیالہ لے کر آیا تھا اس کو بلاؤ۔ پھر وہ شخص حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیالہ اس شخص سے لے لیا اور پانی منگا کر اس میں پانی ملا دیا۔ پھر اس کو منہ سے لگایا (اور اس کی شدت کی وجہ سے ذائقہ اب بھی کڑوا محسوس ہوا) اور پانی منگوایا اور اس میں (مزید) پانی ملایا پھر فرمایا جس وقت ان برتنوں میں شراب تیز ہو جائے تو تم اس کی تیزی پانی سے ہٹا ( کم کر) دو۔

It was narrated that Zaid bin Jubair said: “I asked Ibn ‘Umar about drinks and he said: ‘Avoid everything that intoxicates.”
(Sahih)

یہ حدیث شیئر کریں